الجھے راستے

ملا ہے مان کر شرطیں جو قرضہ
قیصدے اس کے گائے جا رہے ہیں
 یہ دعوی تھا کہ کم ہو گی گرانی
اسے لیکن بڑھائے جا رہے ہیں
غریبوں کی بدل پانی نہ قسمت
مگر مژدے سنائے جا رہے ہیں
حقائق کیا ہیں یا پھر کیا نہیں ہیں
غلافوں میں چھپائے جا رہے ہیں
ابھی تک تو ہے پیراہن پرانا
نیا پھر کیا بنائے جا رہے ہیں
نظر نہ بہتری آئی ابھی تک
مگر ڈھارس بندھائے جا رہے ہیں
پڑے ہیں جو سمندر پار ڈالر
نہ آئے ہیں نہ لائے جا رہے ہیں
وہی بھاشن کہ این آر دو نہ دیں گے
تواتر سے سنائے جا رہے ہیں
دفاتر میں رکے ہیں کام اکثر
جو سائل ہیں رلائے جا رہے ہیں 
نہیں کرتے ہیں ڈھنگ سے کا افسر
بظاہر ڈنگ ٹپائے جا رہے ہیں
ضیاء چکر پہ چکر دے کے بابو
مری فائل گھمائے جا رہے ہیں
(شرافت ضیاء )

ای پیپر دی نیشن