اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) نیب ترامیم کیس میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ سزا کچھ بھی ہو جرم تو جرم ہی رہتا ہے سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ دوران سماعت وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پارلیمان کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ اسے قانون سازی کا اختیار ہے۔ کالعدم کرنے پر عدالت کو بتانا ہوگا نیب ترامیم جیسی قانون سازی کیوں نہیں ہوسکتی، صرف وہی قانون کالعدم ہو سکتا ہے جو بنانے پر آئینی ممانعت ہو، عدلیہ کے اختیارات کم کرنے کیلئے کی گئی قانون سازی کالعدم ہوسکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا پھانسی کی سزا ختم کرنا آئینی عمل ہوگا؟ اگر پارلیمنٹ نیب کو ہی ختم کردے تو کیا اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا پارلیمان کو قانون سازی کیساتھ قانون واپس لینے کا بھی اختیار ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا عدالت یہ کہ کر نیب کو بحال کر سکتی ہے کہ احتساب ختم ہوگیا؟ چیف جسٹس نے کہا کیا تعزیرات پاکستان ختم ہونے سے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہونگے؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا برطانیہ ان ممالک کیساتھ ملزمان حوالگی کا معاہدہ نہیں کرتا جہاں سزائے موت دی جاتی ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا شرعی قانون میں سزائے موت موجود ہے،کیا شرعی اصولوں کیخلاف قانون سازی کی جا سکتی ہے؟ جس پر مخدوم علی خان نے کہا اسلام میں دیت اور قصاص کا تصور بھی موجود ہے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا عدالت قوانین کا جائزہ آئین اور بنیادی حقوق کے تناظر میں ہی لے سکتی ہے، مخدوم علی خان نے کہا شریعت کے تحت قوانین کا جائزہ صرف شرعی عدالت لے سکتی ہے، نیب ترامیم کا جائزہ اسلامی اصولوں کے تناظر میں نہیں لیا جا سکتا، اجماع اور اجتہاد کے اصول ریاستی ادارہ پارلیمان استعمال کر رہا ہے، چیف جسٹس نے کہا قرآن میں امانت اور خیانت کے اصول واضح ہیں خائن کیلئے قرآن کریم میں سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ عدالت میں بحث جرم کی حیت تبدیل کرنے کی ہے سزا کچھ بھی ہو جرم تو جرم ہی رہتا ہے، مزید سماعت 7 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔
سپریم کورٹ