پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں جب بھی وفاق اور صوبوں میں سیاسی جماعتوں کو اقتدار ملا انہوں نے ہر ممکن حربہ اختیار کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو معطل رکھنے یا ان کے اختیارات سلب کرنے ہی کی کوشش کی ہے،جبکہ پیپلز پارٹی کی تو یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ انتخابی نتاج میں سے صرف وہ نتیجہ تسلیم کرتی ہے جس میں وہ کامیاب ہوئی ہو ۔ حال ہی میں کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں سرکار کی مدعیت میں ھاندلی کا جس انداز میں ریکارڈ قائم ہواہے اسے تاریخ میں ہمیشہ یار رکھاجائے گا،تاریخ بتاتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جب پارٹی کی بنیاد رکھی تب اپنی تاریخ کے پہلے جمہوری انتخابات کے نتاج میں اکثریت نہ ملنے پر اسی پارٹی نے انتخابی نتاج تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل کرنے کے خلاف دباو ڈال کر ڈھاکا میں اسمبلی اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی تھی اسی پیپلزپارٹی کے سربراہ پر یہ الزام بھی تھا کہ انہوں نے ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ بھی لگایا تھا ۔ بھٹو صاحب نے یہ نعرہ لگایا ہو یا نہیں نتیجہ یہی ہوا کہ ادھر مجیب اور ادھر پی پی پی یہ انتخابی نتاج تسلیم نہ کرنے کا پہلا نتیجہ تھا کہ ملک ٹوٹ چکا تھا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پیپلز پارٹی نے 1977 میں اپنے خلاف عوام کی رائے کو جھرلو الیکشن کے ذریعے بدلنے کی کوشش کی جس پر آئین ٹوٹ گیا اور ملک کئی سال تک آمریت کے اندھیروں میں گم رہا،آج بھی اسی پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت قائم ہے اور ملک میں وہی صورتحال آج بھی دکھائی دے رہی ہے ۔ پاکستان کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں ہر آدمی خود کو ایک عجیب مشکل میں محسوس کرتاہے خود کو مجبور اور بے بس محسوس کرتاہے اپنی مرضی سے ووٹ کاسٹ کرنا بھی اس کے لیے دشمن کی سرحد عبور کرنے سے کم نہیں ہے وہ بجلی پانی اور اپنی بنیادی سہولیات سے خود کو محروم تصور کرتاہے اور ان تمام بنیادی سہولیات کو حاصل کرنے کے لیے وہ بھاری بھرکم ٹیکس اداکرتاہے پھر بھی ان ضروریات سے محروم رہتاہے،کراچی ایک طویل عرصہ سے بلدیاتی مسائل سے دوچار ہے ایسا لگتاہے کہ جان بوجھ کر شہر قائد کی عوام پر یہ مسائل ڈالے جارہے ہیں ،سندھ میں بلدیاتی انتخابات کادوسرا مرحلہ گزشتہ سال چوبیس جولائی کو ہونا تھامگر صوبے میں غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے اسے تین مرتبہ ملتوی کیا گیا،موجودہ بلدیاتی انتخابات کا ایم کیو پاکستان نے بائیکاٹ کیا باقی تمام جماعتیں میدان میں رہی ،ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کے انضمام کے بعد مشترکہ طورپرشہر کی حلقہ بندیوں کو جوازبناتے ہوئے ایسا کیا گیا اور الیکشن سے ایک رات قبل ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیاجس میں ان کا کہنا ہے کراچی کے ضلع غربی میں یونین کونسلزاور ٹاون کی تشکیل غلط ہے اس میں پیپلزپارٹی کی بدنیتی شامل ہے، لیکن پندرہ جنوری کے بلدیاتی انتخابات کے نتاج سامنے آنے کے بعدیہاں کا سیاسی ماحول مزید کشیدہ ہوچکاہے ،رواں مہینے پیلزپارٹی کی سندھ میں قائم حکومت نے کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں اپنے خلاف آنے والے نتاج کے ساتھ ایسے بھونڈے انداز میں اور سرعام دھاندلی کی کوشش کی ہے کہ جس کے باعث ہر بندہ بشر حیران وپریشان ہوکر رہ گیاہے محض چند سو ووٹوں کو گننے کے لیے دوراتیں گزاردی گئی ، کراچی کی 235 یوسی میں الیکشن ہوئے ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے تقریبا 100 یوسی چیئرمین کے نتاج آر او سے مستند حاصل کیے ۔ لیکن اتوار کی شام 5 بجے پولنگ ختم ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی اور نتاج مرتب کرنے کا کام رات گئے تک جاری رہا اس کے باووجود کہ خود حکومت اور الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس تمام نتاج آگئے ہیں ۔ اگر الیکشن کمیشن کے پاس رات کو 2 بجے بھی تمام نتاج آگئے تھے تو صبح دس بجے تک بڑے آرام سے 235 نشستوں کے تحریر شدہ پرچوں کو جیتنے اور ہارنے والی جماعتوں کے امیدواروں میں عام کیا جاسکتاتھا ۔ سارے رزلٹ اگر تیار ہوگئے تھے تو 235 پرچوں کو ایک فہرست میں منتقل کرنے میں چند گھنٹے لگنے تھے لیکن پیر کی رات گئے تک یہ نتاج مکمل اور جاری نہیں کئے جاسکے اس وقت تک اس انوکھی اور سرعام دھاندلی کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ ملیا میٹ ہوچکے تھے، سندھ حکومت کی جانب سے انتخابی حلقوں کی من مانی تقسیم اس کے بعدووٹر لسٹوں میں گڑ بر کی شکایات اور پھر انتخابات سے کچھ دیر پہلے انتخابی عملے کی سیاسی بنیادوں پر تقرری سمیت بہت سی بے ضابطگیاں پہلے ہی عیاں ہوچکی تھی،لیکن عوام نے شاید پیپلزپارٹی سے مکمل منہ موڑ لیا تھا کیونکہ اس قدر جال بچھانے کے باوجود جماعت اسلامی اور تحریک انصاف درجنوں یونین کونسلوں میں کامیاب دکھائی دی لیکن الیکشن کی پولنگ ختم ہونے کے 36 گھنٹے گزرنے کے بعد نتاج مکمل جاری نہ ہوئے، دھاندلی اور نتاج تبدیل کرنے کے شبہات یقین میں بدل چکے تھے ۔ یہ کراچی کے حق پر ایک اور تاریخی ڈاکا تھاکہ تبدیل شدہ نتاج کاچارٹ پولنگ ختم ہونے کے 48 گھنٹے بعد جاری کیاگیا،اسی دن حیدرآباد میں انتخابات کے فوری بعد ہی رزلٹ آنا شروع ہوچکے تھے اور ہرجگہ پی پی کے امیدوار جیت کا رقعہ لیکر جشن مناتے دکھائی دیے مگرکرکم ترین ٹرن آوٹ کے باوجودکراچی کے ووٹروں پر الیکشن کمیشن کے بکاو افسران بڑی ڈھٹائی سے نتاج میں تاخیر کی حیل وحجت پیش کرتے رہے،دادو اور ٹنڈو محمد خان کی دور دراذ یوسیز کے نتاج عوام کے زبردست انداز میں حصہ لینے کے بعد پولنگ ختم ہونے کے ایک سے دو گھنٹوں میں پیش کردیئے گئے تھے،یہ سوچنے کی بات ہے کہ کروڑوں روپے عوام کے ٹیکسوں سے پلنے والا الیکشن کمیشن ایک ڈویزن کا رزلٹ دو دن بعد بھی نہ دے سکا ۔ تحریک انصاف جماعت اسلامی سمیت تمام سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت پردھاندلی کے الزامات لگارہی ہیں حتی کے اس شہر کی عوام بھی ان انتخابات کو ماننے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی ۔ عمران خان نے اس پورے ٹھپہ مافیا نظام سے لڑتے ہوئے الیکٹرونک ووٹنگ مشین لانے کا فیصلہ کیاتھاجس کو رکوانے کے لیے پس پردہ کرداروں نے چوری چھپے میٹنگیں کرکے یہ فیصلہ کیاکہ الیکٹرونک ووٹنگ کا شفاف نظام پاکستان میں کسی بھی صورت نہیں آناچاہیے ۔ آج قوم نے اس بدترین دھاندلی پر عمران خان کی اس کاوش کو بہت یاد کیا جس کی مخالفت کے لیے تمام قوتیں اکھٹی ہوئی اور عمران خان کی اس کوشش کو ناکام بنادیا، یہ اس نظام اور خاص طورپر الیکشن کمیشن پر ایک سوالیہ نشان ہے کہ جو الیکشن کمیشن دو ڈویزن کو دھاندلی سئے پاک نہ کرسکے اوراس پر ٹھپہ مافیا کا آلہ کاربنے ایسا بے بس ادارہ دھاندلی سے پاک شفاف انتخابات پاکستان بھر میں کیسے کرواسکتاہے ۔ موجودہ کراچی کا بلدیاتی انتخاب الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری اور انتخابی عمل کی شفافیت پر ایک بدنما داغ کی صورت میں ہمیشہ یادرکھاجائیگا ۔
الیکشن کمیشن کا جھرلو
Jan 20, 2023