موسم بدل رہاہے اور ظاہر ہے اسکے ساتھ زندگی کا رنگ بھی بدل رہاہے، ان موسمیاتی تبدیلیوں کی بڑی وجہ ترقیاتی یافتہ ممالک کی طرف سے کارخانوں اور بڑی بڑی فیکٹریوں سے ہونیوالے دھوئیں اور گیسز کا اخراج ہے، جسے روکنا بہرحال ان ممالک کی ذمہ داری ہے مگر ایسا نہیں ہورہاہے جس کے نتیجے میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں زندگی اور بھی مشکل ہوگئی ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہونیوالے ممالک میں شامل ہے ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگیٹرس نے ستمبر میں خود ان علاقوں کا دورہ کیا جس کے بعد سے وہ مسلسل اس کوشش میں تھے کہ کسی طرح اس اہم مسئلے پر ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جائے، اس مقصد کیلئے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا کا انتخاب کیاگیا جہاں بالآخر 9جنوری کو پاکستان اور اقوام متحدہ نے مشترکہ طور پر ایک کانفرنس کا اہتمام کیاگیا۔اس کانفرنس میں دنیا کے بہت سے ممالک کے سربراہان اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے سربراہان نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس کو ہرلحاظ سے ایک کامیاب کانفرنس کہا جا سکتا ہے۔اس کانفرنس کا بنیادی مقصد سیلاب سے بری طرح متاثرپاکستان کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا تاکہ دنیا حقیقت کو سمجھ کر ہماری مدد کرے۔ پاکستان کے وزیراعظم شہبازشریف نے پاکستان کا مقدمہ بھرپورطریقے سے لڑا، اس کانفرنس میں پاکستان نے سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے ایک جامع اورموثرپلان پیش کیاجسے 4RFفریم ورک کہاجاسکتاہے، کانفرنس کے مندوبین نے اس مفصل اور جامع بحالی کے منصوبے کو بہت سراہا اور حکومت وپاکستانی عوام کیلئے بھرپور حمایت اور مدد کا اعادہ کیا۔
4RFمنصوبے کے تحت سڑکوں اور ریل لائنوں کی بحالی سے لے کر عام آدمی کی مکمل بحالی تک کا منصوبہ دیاگیاہے، ایک مفصل سروے کے مطابق سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہونیوالے نقصانات کا تخمینہ 130 ارب ڈالر لگایاگیاہے جبکہ بحالی کے کاموں کیلئے اگلے تین سے پانچ سالوںمیں تقریباً سولہ ارب ڈالرز درکار ہونگے۔ان میں سے 50 فیصد یعنی کہ 8 ارب ڈالر حکومت پاکستان اپنے ذرائع سے فراہم کریگی جبکہ باقی 8 ارب ڈالرز کے حصول کیلئے بنیادی طور پر اس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ کانفرنس کے شرء کو مختلف اعداد و شمار اور ڈاکومنٹریز کے ذریعے اس موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات بارے بریف کیا گیا۔ اس کانفرنس کی بنیادی انعقاد کے سلسلے میں وزارت خارجہ، وزارت خزانہ، وزارت منصوبہ بندی اور حکومت پاکستان کے دوسرے ذیلی اداروں نے جن میں این ڈی ایم اے اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت بھی شامل ہے، نے بھرپور محنت کی اور جانفشانی سے کام کیا جس کا اعتراف کانفرنس کے شرکاء نے بھی کیا۔ کانفرنس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ ایک تہائی پاکستان اس سیلاب سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ 3 کروڑ سے زیادہ آبادی کو اس تباہی کا سامنا کرنا پڑا جس کا سب سے زیادہ نقصان گھروں کے علاوہ ذرائع مواصلات اور زرعی شعبے کو ہوا ہے۔ ملک میں خوراک کی کمی کا بھی اندیشہ ہے جبکہ بہت سے علاقوں میں آج بھی سیلاب کا پانی کھڑا ہے۔
کانفرنس کے دو سیشن ہوئے جن کے دوران مختلف ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے توقعات سے زیادہ رسپانس دیکھنے کو ملا۔ پاکستان نے اپنی فوری ضرورت کو 8 ارب ڈالرز بتایا جبکہ کانفرنس کے اختتام تک تقریباً 10 ارب ڈالر سے زیادہ کے وعدے اور اعلانات کئے گئے جو کہ ایک غیرمعمولی عمل ہے۔ سعودی عرب اور چین جیسے پاکستان کے دیرینہ اور قریبی دوست ممالک کیساتھ ساتھ یورپی یونین، فرانس، جرمنی اور جاپان نے بھی بھرپور مدد کا اعلان کیا جبکہ اسلامی ڈویلپمنٹ بنک، ایشیائی ڈویلپمنٹ بنک، ایشیائی انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بنک اور یو ایس ایڈ کی جانب سے بھی بھاری رقوم کے وعدے کئے گئے۔ اس کانفرنس کو ہر لحاظ سے ایک کامیاب کوشش کہا جا سکتا ہے جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ قدرتی آفات زندگی کا ایک حصہ ہیں مگر کم ہی ایسا دیکھنے کو ملا ہے کہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے کسی ملک کی مدد اور بحالی کیلئے اس طرح مشترکہ کانفرنس کا اہتمام کیا جائے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل جناب انتونیو گوئتریس کا کردار سب سے اہم ہے۔ حسب توقع حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف اور اسکے قائد عمران خان نے اس کانفرنس کو وقت اور پیسے کا ضیاع قرار دیتے ہوئے ایک ناکام کوشش قرار دیا ہے جو کہ یقینی طور پر ایک مایوس کن ردعمل ہے کیونکہ ہمیں اپنی سیاست کو اس طرح کے سنگین مسائل تک نہیں لیکر جانا چاہیے، موسمیاتی تبدیلی اور اسکے نتیجے میں ہونیوالے نقصانات ایک مجموعی قومی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کیلئے ایک قومی سوچ اور اتحاد اور یگانگت کی ضرورت ہے، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا، اسی طرح پاکستان کی یہ کامیابی ہندوستان سے بھی ہضم نہیں ہورہی اور ہندوستانی میڈیا بھی اس کانفرنس کو بھرپور طریقے سے ہدف تنقید بنارہاہے۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پر بھی ضرورت سے پاکستان کی حمایت اور ہمدردی کا الزام لگایاجارہاہے، ہندوستان کی تنقید اورپریشانی ہی اس کانفرنس کی کامیابی کا ثبوت ہے، وزیراعظم شہبازشریف اور ان کی ٹیم یقینی طور پر مبارکباد اور شاباش کی مستحق ہیں کہ انہوں نے اس اہم مسئلے کو نہایت کامیابی سے دنیا بھر میں اٹھایاہے، اس کانفرنس کے نتیجے میں اعلان شدہ امداد سے سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی میں بہت مدد ملے گی اور اس سے معیشت پر بھی بہت اچھااثرپڑیگا۔اسکے ساتھ ساتھ اس کانفرنس کے کامیاب انعقاد سے پاکستان کا بین الاقوامی تاثربھی بہت بہترہواہے۔ حکومت کی اس کامیاب کوشش کو تمام تر اختلافات سے بالاترہوکر سراہا جانا چاہیے کیونکہ یہ کسی ایک پارٹی کی نہیں بلکہ پاکستان کی کامیابی ہے۔