گلشن ِشوق میں پھر آیا کوئی مثلِ نسیم

شہرکے تاریخی کالج کی سالانہ کانووکیشن تھی،پنجاب کے(اس وقت کے) چیف سیکرٹری اے زیڈکے شیردل مہمان خصوصی تھے،تقریب کے غیررسمی سیشن کے دوران انکی نظریںہال میں شرکا کی اگلی نشستوں پر تشریف فرما ایک پروقارشخصیت پرجم گئیں۔ سرخ وسپید رنگت،قدرے فربہی مائل جسم،نکلتاہواقد، سرکے بال نفاست سے رنگے ہوئے،خوش لباس،چہرے پرایک تقدس،جلال وجمال کی کیفیات یک جا؛ جیسے صدیوں پرانی مسجدکا کوئی مینار۔شیردل اپنی مسندسے اٹھے ،اس شخصیت کے پاس گئے اور بڑے ادب سے معانقہ کیا ، یہ انکے کالج کے زمانے کے اردوزبان وادب کے استاد ڈاکٹرالف۔د۔نسیم تھے۔انھوں نے ڈاکٹرنسیم صاحب سے عرض کی۔استاد مکرم!میرے لائق کوئی خدمت ہوتو ابھی حکم کریں۔استاد نے بے نیازی سے کہا۔شیردل صاحب!اگرکوئی خدمت کرناہی چاہتے ہیںتواس کالج میں ایم اے اردو کی کلاس کاآغاز کروادیں۔یوں ڈاکٹرالف۔د۔نسیم کی خواہش کے احترام میں آٹھ دیگر مضامین کے ساتھ ایم  اے اردوکی کلاس بھی شروع ہوگئی۔ یہ شان بے نیازی ڈاکٹر الف۔د۔نسیم کی شخصیت کاخاص وصف تھی۔یہ بات سن کرمیرے دماغ نے ایک جست بھری اور ہزاروں سال پہلے علم ودانش کے ایک مرکز یونان میں جا پہنچا، جہاں ایک نوجوان اپنے استاد کے حضور کھڑا ہے۔ استاد گھرکے صحن میں کسی تجربے میں مستغرق ہے۔ سکندرکودیکھتے ہی بولا، ’’سکندر!لوٹ آئے؟‘‘۔’’جی جی،آدھی دنیا فتح کرلی، آدھی پر کشور کشائی کی دھن میں حملہ آور ہونے کا ارادہ ہے۔کوئی کام ہوتو کہیے‘‘۔استاد نے بے نیازی سے کہا۔ ’’سکندر ! میری دھوپ چھوڑ دو‘،تم میرے تجربے کے راستے میں رکاوٹ بن رہے ہو‘‘۔مشہور فاتح سکندراعظم اور اسکے استاد کے درمیان ہونیوالی یہ گفتگو دراصل علم اور طاقت کے مابین ہونے والا مکالمہ تھا۔ہم نے اہل نظر کی بے نیازی کے بہت سے واقعات سن رکھے ہیں ۔ ایسا ہی ایک واقعہ معروف ماہرِ اقبالیات پروفیسر مرزا محمد منور سے بھی منسوب ہے، وہ اسلام آباد میںایوان صدر کی کسی تقریب میں مدعو تھے، یہ جنرل محمدضیاالحق کے مارشل لا کا زمانہ تھا،ضیا لوگوں پرنوازشات کرتے رہتے تھے۔ تقریب کے بعد عشائیے کے دوران جنرل صاحب نے منورمرزا مرحوم سے مخاطب ہوکر کہا۔ ’’پروفیسر صاحب ! میرے لائق کوئی خدمت ہوتو کہیے‘‘۔ مرزاصاحب اس بات پرکچھ جھینپ سے گئے،جب جنرل صاحب نے اپنی بات کو دہرایاتومرزاصاحب شرما کرکہنے لگے ’’صدر صاحب! آپکے یہاں واش روم کس طرف ہے؟‘‘۔ اس بات میںچھپے راز کو اہل علم بخوبی جانتے ہونگے۔ہمارے ڈاکٹر الف د نسیم پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میںانھی پروفیسر منور مرزا کے ہم جماعت تھے اور قناعت اورخود داری میں ان سے بھی چندقدم آگے۔  نسیم صاحب کی پیدائش ہوشیار پور (برطانوی ہند)میں ہوئی جہاںبارشوں کی مدھرجل ترنگ کانوںمیںرس گھولتی تھی۔اس کا دائرہ اثر کوہ شوالک کی پہاڑیوں سے لیکر ہمالیہ کی برف پوش چوٹیوںتک وسیع ہے۔ ہوشیارپور کے کالج میں نسیم صاحب کا واسطہ شفیق اساتذہ سے پڑا،ان میں ہندستان کے معروف مورخ سیتا رام کوہلی،سلیم تابانی، شیخ عبدالحق اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق شامل تھے۔ان اساتذہ میں غلام جیلانی برق نے نسیم صاحب کی افتاد طبع کو دیکھتے ہوئے انھیں شعر گوئی کی طرف متوجہ کیا۔ اورینٹل کالج میں نسیم صاحب کو ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر ابوللیث صدیقی ،سید وقار عظیم، علامہ عباس شو ستری اور ڈاکٹر عبادت بریلوی جیسے عظیم اساتذہ سے کسب فیض کا موقع ملا۔اقبالیات کاپرچے کی تدریس سیدعبداللہ کے ذمے تھی لیکن علامہ اقبال کے دوست اور رسالہ ’’مخزن‘‘ کے مدیر بیرسٹر سر عبدالقادراکثر اعزازی طور پر تشریف لایاکرتے تھے۔انکی پیرانہ سالی کے مسائل کے باعث اقبالیات کی کلاس لا کالج ہال کے ساتھ ایک کمرے میں ہوتی تھی۔نسیم صاحب کو سرعبدالقادر کا لیکچر بہت پسندتھا کیونکہ اس میںوہ علامہ اقبال کے علاوہ علامہ شبلی نعمانی، سیدسلیمان ندوی،مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا محمدحسین آزاد جیسے مشاہیر سے اپنی ملاقاتوں کا احوال سنایاکرتے تھے۔طلبہ انکی گفتگوکو تبرک سمجھ کرسنتے اور قیمتی موتیوں کی طرح اپنے دامن میں سمیٹتے جاتے ۔ایم اے میں ڈاکٹر نسیم طلائی تمغے کے حق دار ٹھہرے۔ دوران تعلیم انکے ہم جماعتوں میں پروفیسر مرزا منور کے علاوہ امجدالطاف اور قیوم نظرجیسے لوگ بھی تھے ۔ اسی کامیابی کی بہ دولت انھیں جامعہ پنجاب میں دوسو روپے ماہوار پر اردو کے ریسرچ سکالرکے طور پر ملازمت مل گئی۔ انھوں نے ’’اردوشاعری کا مذہبی اور فلسفیانہ عنصر‘‘کے عنوان سے پی ایچ ڈی اردو کا مقالہ لکھا جس میں انھوں نے قدیم دکنی دور سے جدید زمانے تک متعلقہ موضوع کا احاطہ کیا تھا۔یہاں انکی اٹھارہویں صدی کے اہم شاعر خواجہ میر در د سے روحانی وابستگی ہوئی جو تاحیات قائم رہی۔رزق کی جستجو میں وہ لاہور جیسے ادبی مرکز سے دور چھوٹے سے شہرمنٹگمری(اب ساہیوال)میں آگئے اوریہاں کے کالج سے شعبہ اردو سے وابستہ ہوگئے۔ان کی بقیہ تمام عمر یہیں گزرگئی۔
نسیم صاحب تمام عمرتصنیف وتالیف کی دنیاسے وابستہ رہے۔ڈاکٹر الف د نسیم شاعری اور تنقیدوتحقیق میں نمایاں مقام حاصل کیا۔انکے کردار کی عظمت کا یہ عالم تھا کہ تادم مرگ وہ اپنے ایم اے کے طلائی تمغے کی زکوٰۃ دیتے رہے۔ہمارے معاشرے سے اب ایسے عظیم کردار ختم ہوتے جاتے ہیں۔حال ہی میںاکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے سربراہ ڈاکٹر یوسف خشک کی خصوصی کاوش سے پاکستانی ادب کے معمار کے سلسلے کی ایک کتاب ’’ڈاکٹرالف د نسیم :شخصیت اور فن‘‘کے عنوان سے شائع کی گئی ہے۔پاکستان اور نظریہ پاکستان کے اس داعی کی فکر کو عام کرنے کی یہ کاوش ستائش کے لائق ہے،ورنہ ہمارے سرکاری ادارے تو عام طورپر علم وعمل سے تہی ہیں،عام طورپر ارباب بست وکشاد کی ترجیہات میں بھی یہ بات شامل نہیں۔چلیں ’’دیرآید درست آید‘‘۔آخرمیں تبرک کے طور پر نسیم مرحوم کی نعت کا ایک شعر سنیے:
جس انجمن میں ذکر شہِ انبیا نہیں
اس انجمن میں ہم توہیں لیکن خدانہیں

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...