پاکستان کی تباہ حال معیشت اور اہلِ سیاست کا غیر سنجیدہ طرزِ عمل 

پاکستان میں معاشی بدحالی کی جو صورتِ حال ہے اس کے مظاہر ہم ملک میں تسلسل سے دیکھ رہے ہیں۔ ہر آنے والا دن ملک و قوم کے مسائل و مشکلات کے بڑھنے کی ’’نوید‘‘ سنا رہا ہے۔ وزیر ، خزانہ کی طرف سے اگرچہ یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتِ حال بہتری کی جانب گامزن ہے۔ ملک کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔ مالی حالات پہلے سے بہتر ہیں۔ لیکن زمینی حقائق ان بیانات کی نفی کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت قوم پر ظاہر ہوتی جا رہی ہے کہ موجودہ حکمران بھی سابقہ حکمرانوں کی طرح ملک کی معیشت کو کنٹرول کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی معاشی ٹیم اور ’’معاشی جادوگر‘‘ وزیر خزانہ اسحاق ڈار تمام تر دعوئوں کے باوجود مالی بگاڑ کو سُلجھا نہیں پائے لیکن عوام کو اصل صورتِ حال سے آگاہ کرنے کے بجائے گمراہ کن بیانات کے ذریعے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں جبکہ اصل صورتِ حال یہ ہے کہ زرِمبادلہ کے ذخائر ملک کی تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ بنکوں میں ڈالرز انتہائی کم ہو چکے ہیں، بڑے بڑے سرمایہ داروں اور کاروباری اداروں نے سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کر دیا ہے۔ ڈالرز کی افغانستان سمگلنگ بدستور جاری ہے اور اس میں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ ہزاروں کنٹینرز ایل سی نہ کھلنے کی وجہ سے کراچی بندرگاہ پر رُکے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے بڑے بڑے کارخانوں اور فیکٹریوں پر تالے پڑ گئے ہیں بیشتر ٹیکسٹائل یونٹس بند ہو گئے ہیں۔ پروڈکشن اور مینوفیکچرنگ کا کام رُکا پڑا ہے۔ غیر یقینی کے سائے اس قدر گہرے ہو چکے ہیں کہ گورنر سٹیٹ بنک کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا ہے کہ ’’امپورٹ کا پریشر اتنا ہے کہ اس کے لیے ڈالرز ناکافی ہیں، وفاق ایوانہائے صنعت و تجارت (ایف پی سی سی آئی) میں خطاب کرتے ہوئے گورنر سٹیٹ بنک کا کہنا تھا کہ ہم نے کمرشل بینکوں کو ہدایات جاری کیں کہ وہ دیکھ کر لیٹر آف کریڈٹ کھولیں۔ ہمارا مسئلہ 5700 کنٹینرز ریلیز کرنا ہے‘‘۔ جبکہ بینکوں میں ڈالرز ملکی ضروریات سے کم ہونے کی بنا پر ایل سیز نہیں کھولی جا رہیں۔ ان فلوز کم ہونے اور آئوٹ فلوز پڑھنے سے خسارا بڑھا ہے۔ اسے کم کرنے کے لیے برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی ناگزیر ہے۔ جبکہ ہمارے ماہرین معیشت اور فیصلہ ساز درآمدات میں کمی ہی نہیں کر پائے نتیجتاً زرِمبادلہ اس مد میں خرچ ہو رہا ہے اور ڈالرز کی مقدار خوفناک  حد تک کم ہو گئی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے معاشی جادوگر ہر مشکل وقت میں عالمی مالیاتی اداروں اور امیر دوست ملکوں کی طرف دیکھتے اور ان سے بھیک یا امداد طلب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ابتک ہم اپنے قریبی دوست ممالک ، آئی ایم ایف ، عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک سے اربوں ڈالرز کے قرضے حاصل کر چکے ہیں لیکن پاکستان کے عوام پر ان حاصل شدہ قرضوں کا عشرِعشیر بھی خرچ نہیں ہوا۔ یہ قرضے کہاں جاتے ہیں ، اس کی آج تک کسی نے چھان بین نہیں کی جبکہ ان قرض دینے والے اداروں کی شرائط اس قدر سخت ہوتی ہیں کہ ان پر عمل درآمد کے نتیجے میں ملک مزید مالی مسائل و مشکلات کا شکار ہوتا چلا جارہا ہے۔ حالیہ جنیوا کانفرنس کے انعقاد کو حکومتی بزرجمہروں نے بہت بڑی کامیابی قرار دیا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ 10 ارب ڈالرز سے زائد کی مالی امداد سے ملک کی قسمت بدل جائے گی اور عام آدمی کے حالات بھی سنور جائیں گے لیکن یہ سب خوش فہمی ثابت ہوئی۔ 10 ارب ڈالرز کی امداد کا صرف وعدہ ہوا تھا نقد رقم ہمارے اکائونٹس میں منتقل نہیں ہوئی۔ اب ایک امید عالمی بنک سے باندھی گئی تھی کہ اس سے ہمیں 1.1 ارب ڈالر کا قرض ملے گا اور اس سے ہم اپنے معاملات کو چلا لیں گے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق عالمی بنک نے پاکستان کے لیے 1.1 ارب ڈالر کے قرض کی منظوری اگلے مالی سال تک مؤخر کر دی ہے۔ 
اب موجودہ مالی بحران کی سنگینی کے پیشِ نظر وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اہم ویڈیو لنک اجلاس ہوا جو پانچ گھنٹے تک جاری رہا۔ اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے علاوہ احسن اقبال، رانا ثناء اللہ اور خواجہ سعد رفیق نے شرکت کی۔ اجلاس میں معاشی بحران، بینکنگ سیکٹر میں اصلاحات، ڈالر کی قیمت کنٹرول کرنے سے متعلق تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں جو فیصلے کیے گئے ان کی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئیں، تاہم اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ ملک کی معاشی صورتِ حال جس حد تک خراب ہو چکی ہے اس کا حکمران طبقہ بھی اب ادراک کر رہا ہے لیکن اس  کے باوجود جن اقدامات کے اٹھانے کی ضرورت ہے وہ ابھی تک نہیں اٹھائے جا سکے۔پیدا واری اور غیر ضروری اخراجات کو کنٹرول کرنے کی جانب کوئی توجہ ہی نہیں دی جارہی ۔بعض حلقوں کی طرف سے ملک میں مالی ایمرجنسی نافذ کرنے کی باتیں بھی ہورہی ہیں ۔تاکہ مالی بے ضابطگیوں اور بنیادی معاشی مسائل کا خاتمہ ہو سکے ۔ لیکن حکومت نے اس قسم کی خبروں کو افواہ قراردے کر رد کردیا ہے ۔ دوسری طرف قرضوں کے حصول کے لیے قرض دینے والے اداروں کی شرائط حکمرانوں کے پائوں کی زنجیر بن چکی ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات، بجلی ، گیس اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ انہی شرائط ہی کا منطقی نتیجہ اور ثمر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ملک کی معیشت کے سدھار کی تمام تر ذمہ داری کیا حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے؟ دوسرے سٹیک ہولڈرز اس ضمن میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ حالت یہ ہے کہ ملک کے عوام کی خدمت کا دعویٰ کرنے والے تمام اہلِ سیاست آپس میں دست و گریباں ہیں۔ انتشار، بدامنی کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام اس قدر بڑھ چکا ہے کہ بہتری کی کوئی امید ہی دکھائی نہیں دیتی۔ 
وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز سرجوڑ کر بیٹھیں کیونکہ کسی فردِ واحد یا محض حکمران طبقے کا معاملہ نہیں، پوری قوم کا اجتماعی مسئلہ ہے لہٰذا ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں آپس کی محاذ آرائی چھوڑ کر ملک بچانے کی فکر کی جائے اور قومی وقار اور بقاء کی خاطر ذاتی مفادات کی قربانی دی جائے۔ صدر مملکت عارف علوی نے بھی اسی تناظر میں سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ فوجی عدم مداخلت کی موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھائیں اور مسائل کے حل کیلئے جمہوری طریقہ اختیار کریں۔ اگر صدر مملکت اس کیلئے اپنی سابقہ پارٹی کے قائد عمران خان کو قائل کرلیں تو سیاسی قیادتوں کے مابین ایک میز پر بیٹھ کر درپیش قومی مسائل کے حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ قومی سیاسی قائدین کو بہرحال ملکی اور قومی مفادات پر ذاتی سیاسی مفادات کو ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ 

ای پیپر دی نیشن