بلوچستان میں بی ایل اے کے دہشت گردوں نے ایک بار پھر اپنے حملوں میں تیزی لاتے ہوئے گزشتہ چند دنوں میں جو کارروائیاں کی ہیں۔ اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہمسایہ ممالک میں مقیم دہشت گرد اور ان کے سرپرست شامل ہیں۔ بی ایل اے کے افغانستان اور ایرانی بلوچستان میں بھارت کی سرپرستی میں قائم اڈے اور محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جہاں ان کو بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را“ کی طرف سے بھرپور مالی معاونت جدید اسلحہ اور دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔ دونوں ممالک کی طویل سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔ صدیوں سے اس علاقے کے رہنے والے زبان، نسل اور مذہب یگانگت کی وجہ سے آپس میں رابطے میں رہتے ہیں۔ آنے جانے میں بھی انہیں زیادہ پریشانی نہیں ہوتی کیونکہ ہزاروں چور دروازے اس سلسلہ میں کام آتے ہیں۔ افغانستان کی اکثر نہیں بیشتر ضروریات زندگی پاکستان سے انہی چور دروازوں کی بدولت سمگل ہو کر وہاں جاتی ہیں۔ وہاں سے بھی خشک فروٹ غیر ملکی سامان ، اسلحہ اور منشیات کی بڑی مقدار پاکستان آتی ہے۔ ایران کے بلوچستان بارڈر سے پاکستانی شہری پٹرول کی سب سے زیادہ سمگلنگ کرتے ہیں یہاں بے آب و گیا ریگستان میں رہنے والے لوگوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی ذریعہ روزگار نہیں اس کے علاوہ ایرانی سامان یہاں لایا جاتا ہے، جواب میں پاکستان سے اشیائے خوردو نوش و دیگر سامان ایران سمگل ہوتا ہے۔
ان دونوں ممالک سے ہزاروں نئے مہاجرین بھی پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ ان میں ہی چھپ کر دہشت گرد بھی پاکستان میں اپنے سرپرستوں اور حامیوں کی طرف سے قائم محفوظ ٹھکانوں پر آکر پناہ لیتے ہیں۔ حالات سخت ہونے پر واپس ایران اور افغانستان چلے جاتے ہیں۔ مالی آسودگی اور محفوظ پناہ گاہوں کی وجہ سے اور سب سے بڑھ کر بارڈر کراس کرنے کے بے شمار راستوں کی بدولت یہ اطمینان سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ سرحد پر خاردار باڑ لگائی جا چکی ہے۔ مگر افغان حکومت کے کارندے، سمگلر مافیا و اور دہشت گرد عناصر کئی مقامات پر یہ باڑ گرا کر پاکستانی ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان اس سلسلے میں ابھی کافی تحمل سے کام لیتا آیا ہے۔
اب یہ سلسلہ ترک کرنا ہو گا کیونکہ دہشت گرد بلوچستان میں ایران اور افغانستان کی حدود سے جس طرح پاکستانی فوج پر حملے کر رہے ہیں وہ ناقابلِ برداشت ہے۔ دہشت گرد تحمل مزاجی کو پاکستانی فوج کی کمزوری سمجھ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف جنرل نے اپنی تعیناتی کے بعد روٹین کے مطابق دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان کا بھی دورہ کیا۔ وہاں جوانوں سے ملے ان کی قربانیوں اور ثابت قدمی کو سراہا۔ یہ بات بھلا بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسی ”را“کو کب برداشت ہوتی۔ انہوں نے فوراً جوابی طور پر بلوچستان میں اپنے ایجنٹوں کو کارروائی کا حکم دیا جس کے بعد وہاں بی ایل اے کے دہشت گردوں نے وارداتیں کی۔ جن میں سب سے زیادہ تشویشناک حملہ ایرانی سرزمین سے کیا گیا۔ پنجگور کے چکاب سیکٹر میں دہشت گردوں نے گشت کرنے والے دستے پر حملہ کیا جس میں فوج کے چار جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
اس پر پاکستان نے ایران سے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں دہشت گردوں کے مراکز ختم کرائے اور پاکستان پر حملہ کرنے والے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ اپنے سرحدوں کی سخت سکیورٹی یقینی بنائیں تاکہ کسی دہشت گرد کو وہاں سے پاکستان میں داخل نہ ہو سکے۔ یہی توقع افغانستان سے کی جا سکتی ہے اس سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے علاقے سے پاکستان میں داخل ہونے والے دہشت گردوں کی راہیں مسدود کرے اور اپنے علاقے سے پاکستان پر حملہ کرنے والے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائے اور دونوں ممالک پر سفارتی سطح سے دباﺅ ڈالا جائے کہ وہ اپنے اندر قائم پاکستان مخالف دہشت گردی کے کیمپ بند کرے۔
پاکستان کی مسلح افواج اس وقت ان دونوں ہمسایہ ممالک کی طرف سے دہشت گردی کے حملوں میں قدم قدم پر اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہی ہے۔ وطن سے محبت کی لازوال داستانیں رقم کر رہی ہے۔ 22 کروڑ محب وطن عوام ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مگر چند گمراہ عناصر اور ضمیر فروش لوگ فوج کی اس قربانیوں کو ضائع کرنے کے لیے اپنی فوج کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرکے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ آج اگر کروڑوں پاکستانی اپنے گھر میں دفاتر میں کاروباری مراکز میں سکون و اطمینان سے بیٹھے ہیں تو اس کی وجہ ہمارے سکیورٹی اداروں کی لازوال قربانیاں اور ہمت و جرا¿ت کی داستانیں ہیں۔ سرحدوں پر ، ریگستانوں میں بیابانوں میں پہاڑوں پر دریاﺅں میں جنگلوں میں برف زاروں میں سمندروں میں لاکھوں ماﺅں کے یہ بہادر سپوت اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہماری حفاظت میں مشغول ہیں۔ وہ جاگتے ہیں اور ہم چین کی نیند سوتے ہیں۔ ان کی قربانیوں پر انگلیاں اُٹھانے والے ، ان پر زبان درازی کرنے والے کون ہیں سب جانتے ہیں۔ غیر ملکی فنڈنگ نے ان وطن دشمنوں کو یہ طاقت بخشی ہے کہ وہ اپنے بہادر بیٹوں کو سراہنے کی بجائے ان کے خلاف زبان درازی کریں۔
ایسے ضمیر فروش عناصر کو جو اصل میں ان دہشت گردوں کے سرپرست اور سہولت کار ہیں انہیں کسی صورت معاف کرنا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ یاد رکھیں دنیا میں کہیں بھی غداروں کو معاف نہیں کیا جاتا۔ مگر ہم انہیں آج تک گلے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ خاکم بدہن اگر فوج کمزور ہوئی جو ان گمراہ عناصر اور ہمارے یہ دشمن چاہتے ہیں تو پھر ہماری ملکی سلامتی بھی باقی نہیں رہے گی۔ بھارت کی طویل سرحد پنجاب، کشمیر اور سندھ سے ملتی ہے۔ وہ یہاں کیا کرے گا۔ اس کا اندازہ ان سب کو ہے جو یہی چاہتے ہیں۔