میں نے 2003سے آج تک مختلف موضوعات پر سینکڑوں کالم تحریر کئے ہیں مگر یہ واحد موضوع ہے جس پر جتنی مرضی تیاری کر لوں لکھنے کے لئے الفاظ ہی نہیں۔سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنی امی جان کے بارے میں کیا لکھوں اور کہاں سے شروع کروں۔جنوری کا مہینہ،کہنے کو تو یہ ماہ یخ بستہ اور سرد موسم ہے اور ہر دفعہ نئے سال کا پیغام لے کر آتا ہے۔مگر درحقیقت یہ ہر بارمجھے اداس اور غمگین کر جاتا ہے۔ ”امی جان“ کی رخلت۔۔آہ! کاش یہ سب کچھ۔۔ خواب و خیال ہوتا۔ مگرحقیقت ایسی تلخ کہ، صبر و استقامت کا جذبہ بھی ماند پڑتا دکھائی دیتا ہے۔انسان تقدیر الہی کے سامنے بے بس ہوتا ہے اور نا چاہتے ہوئے بھی اس پر راضی ہونا ہی ہوتا ہے۔یہی نظام قدرت ہے جو کائنات کے وجود میں آئے پہلے دن سے شروع ہوا،اور قیامت کی صبح تک جاری رہے گا۔لوگ آئیں گے اور اپنا مقرر کردہ وقت گزار کر چلے جائیں گے۔
21جنوری 2015کا دن، جب میری والدہ رضیہ اکرام اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔آج میری والدہ محترمہ کی آٹھویں برسی ہے۔کہتے ہیں وقت بہترین مرہم ہوتا ہے، جو مستبقل کو حال اور حال کو ماضی میں بدل کر دکھوں کو چھپا لیتا ہے اور انسان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔البتہ کچھ زخم ہمیشہ تازہ رہتے ہیں جب بھی یاد کریں اتنا ہی کرب محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ابھی ان کے اثرات سے باہر نکلے ہی نہ ہوں۔ ماں جیسی ہستی کے بغیرزندگی بے رنگ اور ادھوری سی لگتی ہے۔انہوں نے جہاں مجھے اس دنیا سے متعارف کروایا وہاں دوسری طرف عملی زندگی کو سنوارنے میں اہم کر دار بھی ادا کیا۔انہوں نے ملتان کے زمین دار گھرانے سے تعلق رکھنے کے باجود والد کی کم تنخواہ میں گزر بسر کیا اور خودداری کا دامن کبھی نا چھوڑا۔میں نے اپنے والد کو ہمیشہ رزق حل کی جستجو کرتے اور کماتے دیکھا جبکہ والدہ کو صلہ رحمی اور حسن سلوک کے اعلیٰ مقام کی بہترین مثال قائم کرتے پایا۔کبھی شکوہ، شکایت،ان کے منہ سے نہ سنی۔ وہ معزز و معتبر شخصیت کی مالک تھیں۔عزیز و اقارب میں ہر دل عزیزجانی جاتیں۔خاندان میں کوئی بیمار ہو جاتا تو سب سے پہلے پہنچتی اور عیادت کرتیں۔ انھوں نے ہمیشہ حسن ظن کو اختیار کیا۔اور کبھی بد گمانی کا شکار نہ ہوئیں۔والد صاحب کی رحلت کے بعد والدہ نے جس طرح ہماری پرورش کے عمل کو آگئے بڑھایا، اخلاقی تربیت کی اور ہم سب بہن بھائیوں کو حالات کا مقابلہ کرنا سیکھایا وہ کو ئی اور نہیں کر سکتا تھا۔انہوں نے اچھے برے کی تمیز سیکھائی۔ بلاشبہ ہر کسی کے زندگی پر والدین اسکے والدین کی تربیت کے نقوش دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص بڑا ہے،خوبصورت شخصیت کا مالک ہے تو یقینا یہ اسکے والدین کی پرورش کا ثمر ہے۔ 8جنوری2015 کو انہیں ہارٹ اٹیک ہوا، طبی امداد کے لئے منصورہ ہسپتال لے کر گے بعد ازاں جناح ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ انجیوگرافی کی گئی، معلوم ہوا کہ دل کی دو شریانیں بند ہیں۔ مگر خدا نے انجیوپلاسٹی کی مہلت ہی نہ دی۔20اور21جنوری کی درمیانی شپ اپنے رب کے حضور پیش ہو گئیں۔ والدہ گرامی، ابو جان کی وفات کے بعد، تیرہ برس تک ہمارے ساتھ رہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ والدین کو اپنے جوار رحمت میں رکھے۔(آمین)
”میں وہ بستی ہوں کہ یاد رفتگان کے بھیس میں
دیکھنے آتی ہے اب میری ہی ویرانی مجھے“
(حفیظ جالندھری)
ماں ایک بہت ہی خوبصورت لفظ ہے۔زبان پر آتے ساتھ ہی پیار محبت اور ہمدردی کا احساس ہو نے لگتا ہے۔حسن سلوک کے حوالے سے علمائے اکرام نے لکھا ہے کہ والدہ کا درجہ باپ سے تین گنا ہ زیادہ ہے۔وہ اس لئے کی ماں ایسی مشقتیں برداشت کرتی ہے جوباپ نہیں کرتا۔حضرت ابو ہر یر ہ ؓ فرماتے ہیں ”ایک شخص رسول کی خدمت میں آیا اور سوال کیا۔اے اللہ کے رسول ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟آپ نے فرمایا ”تمھاری ماں“اس نے سوال کیا پھرکون؟ آپ نے فرمایا ”تمھاری ماں“تیسری مرتبہ اس نے عرض کیا پھر کون تو آپ نے فرمایا ”تمھاری ماں“ اسکے بعد پھر اس شخص نے سوال کیا تو آپ نے جواب دیا: ”تمھارا باپ“۔ (بخاری شریف، حدیث 5971)