محمد حمزہ عزیز:
ایک دوست سے چند دن پہلے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا وہ اعلی تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ جا رہے ہیں۔ میں نے مذاق مذاق میں ان سے پوچھ لیا کہ کہیں گرین کارڈ کا ارادہ تو نہیں تو ان کے چہرے پر ایک مسکان آئی اور پھر بولے کہ جس ملک میں نہ آپ کے جان و مال کا تحفظ ہو، تعلیم، صحت اور باقی ادارے دنیا میں کوءڈیڑھ سویں نمبر پر آتے ہو اور دور دور تک ترقی کا کوئی نام و نشان نظر نہ آ رہا ہواس ملک میں کوئی کیونکر بیرون ملک سے اعلی تعلیم حاصل کر کے واپس آئے گا۔ حقیقت یہی ہے کہ اب تقریباً ہر طالب علم کا یہی ارادہ ہے کہ کسی طرح اس ملک سے باہر نکل کے اپنی زندگی بنا لیں۔ ہم جب چھوٹے ہوتے تھے تو ہمیں کہا جاتا تھا کے ہم جنریشن زی پاکستان کا مستقبل ہے لیکن اب یہی لوگ پاکستان چھوڑنا چاہتے ہیں۔ آخر ایسے حالات کیوں آگئے؟۔ ٹریڈنگ اکنامکس کے عالمی میکرو ماڈلز اور تجزیہ کاروں کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 2022 کے آخر میں تقریباً 6.20 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی ساڑھے تئیس کروڑ آبادی میں سے ایک کروڑ پینتالیس لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔ ان لوگوں میں پڑھے لکھوں کی بہت زیادہ اکثریت ہے۔ اپنی آنکھوں دیکھا حال بیان کر سکتا ہوں کہ ہماری یونیورسٹی کے 2022 میں گریجویٹ ہونے والے بیچ کے تقریباً 70 سے 75 فیصد طلبہ و طالبات ابھی تک یا تو کہیں پر بلا معاوضہ انٹرن شپ کر رہے ہیں یا ابھی تک جگہ جگہ میں سی ویز دے رہے ہیں۔ یہ ہےلاہور کی ایک بہت نامور پرائیویٹ یونیورسٹی سے پڑھے طلبہ کا حال ہے کہ بیچارے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ پہلے انہوں نے ایک سمسٹر کے لاکھوں روپے کی فیس ادا کی اور اب جب کمانے کی باری آئی تو مارکیٹ میں نوکریاں ہی نہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ صرف ایک شعبے میں ملازمتیں دستیاب نہ ہو، افسوس تو یہ ہے اس حوالے سے ہر سیکٹر ہی سکڑ چکا ہے۔ نومبر میں آئی ایچ ای سی کی رپورٹ کے مطابق 4000 پی ایچ ڈی سکالرز بے روزگار ہیں۔ ٹریڈنگ اکنامکس کی اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 2023 میں 6.40 فیصد اور 2024 میں 8.50 فیصد کے لگ بھگ رہنے کا امکان ہے۔ یعنی کل دو کروڑ افراد بے روزگاری کے طوفان کی زد میں آنے والے ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں سے ہے جہاں آپ کو ڈبل ایم اے کیا ہوا شخص بھی تندور میں روٹیاں لگاتا ملے گا۔ تعلیمی اخراجات ہیں کہ وقت کے ساتھ بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور اس کو کم کرنے کے لئے حکومت بالکل بھی سنجیدہ نہیں۔ آبادی کے حساب سے سرکاری تعلیمی اداروں کا تناسب بھی بہت کم ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ وقتی فائدے کے لئے ملک کے مستقبل کو گروی رکھا جا رہا ہے۔ اس میں بہت بڑا قصور تو بلاشبہ حکومت کا ہے۔ یہاں پارٹیاں ملک میں بہتری یا ترقی لانے کے لیے الیکشن نہیں لڑتیں بلکہ سب کرسی کے پیچھے ہیں۔ پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق جو پارٹی جیت جائے وہ اپنے نجی کام پورے کرتی ہے۔ اب مختلف ریاستی اداروں کے بارے میں بھی ایسا ہی تاثر قائم ہوتا جارہا ہے -عوام کی کس کو پڑی ہے، یہ ملک چل ہی رہا ہے، چلتا رہے گا۔ بس اپنے معاملات سلجھ جائیں۔پچھلی حکومت میں اعلی عہدے پر رہنے والی ایک شخصیت جو بیرون ملک بھی وسیع کاروبار کی مالک ہے نے ایک نجی محفل میں اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی بیوروکریسی میں کسی کو غریب کا خیال نہیں ہے۔ میں جب بھی کوئی فلاح و بہبود کا کام شروع کرنے لگتا ہوں تو کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ اگر ایسی بااثر شخصیات کا یہ حال ہے تو عام آدمی کا تو آپ خود ہی سوچ لیں۔ دوسرا قصور ہمارے تعلیمی اداروں کا ہے۔ پاکستان میں ابھی تک وہی کلچر چلا آ رہا ہے کہ اگر بیٹا ہوا تو انجینئر اور بیٹی ہوئی تو ڈاکٹر بن جائیں -شکر ہے 2018 کے بعد یہاں لوگوں کو سمجھ آیا کہ کیریئر گائیڈنس کتنی ضروری چیز ہے اور اس کے کیا فائدے ہیں۔ جن حالات میں پاکستان ابھی ہے اس میں ہر کالج اور یونیورسٹی کو چاہیئے کہ اس کے لیے ایک سیکشن بنائے اور طلبہ کو ملکی حالات سے باخبر کرواتے ہوئے انہیں سمجھائیں کہ کس نوکری کا سکوپ زیادہ ہے یا آنے والے وقت میں کونسی ڈگریاں زیادہ فائدہ مند رہیں گی۔ اس کے لئے اچھی اور ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ورنہ ڈگریاں محض ردی کا پلندہ بن کر رہ جائیں گی -