زبان اور قومی لباس کا تفاخر

Jan 20, 2024

حرا فاروق


 حرا فاروق

لباس اِنسان کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔اور زبان ہمارے باطن کو اور ہمارے خیالات کو عملی شکل دینے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔اب سوال یہ پیدا ھوتا ہے آیا کہ آپ اپنے زبان اور لباس کو اپنانے میں خود مختار ہیں ؟ اس کا جواب سب یہی دیتے کہ ہم اپنی مرضی سے زبان اور لباس کا انتخاب کرتے ہیں ۔ لیکِن ایسا ہے نہیں ۔کیوں کہ ہم وہی چیز خریدتے ہیں جسکا رواج ہو چاہے وہ ہماری تہذیب اور اسلام کے مطابق ہو یا نہ ہو ۔بہت سے لباس ایسے ہوتے ہیں جو پہن کر آپ آرام دہ محسوس نہیں کرتے لیکن رواج سمجھ کر آپ لیتے ہیں اور پہنتے بھی ہیں۔ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ آپ دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنے لگ جاتے ہیں ۔آپ خود پہ اعتماد  نہیں رکھتے۔آپکو اپنی پسند ناپسند اور آرام سے زیادہ فکر ہوتی ہے کے آجکل کونسا لباس رواج کے طور پر پہنا جا رہا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارا دماغ تو  اپنا ہے لیکِن ہماری سوچ پر دوسروں کا قبضہ ہے۔ہمیں خود ہی نہیں معلوم ہم جو کر رہے ہیں وہ خود کے لئے ہے یا دوسروں کو متاثر کرنے کے لئے ہے۔ ہم اپنی پسند سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ کونسی چیز ہمیں جدیدیت کے معیار پر پورا اترنے میں مدد دے گی۔اور ایسی سوچ ہمارا جنون بن چکی ہے ۔ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ہم کونسا لباس پہننے میں آرام دہ ہیں ۔کونسا لباس پہن کر ہم خود اعتمادی محسوس کریں گے۔ہم یہ نہیں سوچتے کہ کونسی زبان ہم آسانی سے بول سکتے ہیں ۔ہم صرف یہ سوچتے ہیں کونسی چیز ہمیں جدیدت کے معیار پر پورا کرے گی۔ جددیت پہ بات شروع کی جائے تو کہیں تحریریں بھی کم پڑھ جائیں ۔میں صرف وہ باتیں بیان کروں گی جو ہمارے عنوان کا حصّہ  ہیں۔ماڈرن لفظ انگریزی Modernizations سے ماخوذ ہے۔یہ واضح طور پہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہ لفظ مغرب کی ایجاد ہے اور مغربی تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ ہمارے نزدیک ماڈرن(جدید) لڑکی یا لڑکا وہ ہوتا ہے۔جو مغربی لباس پہنے اس کو پہننے کے تمام تقاضوں سے آگاہ ہوں یعنی  اچھے سے پہننا جانتے ہوں ۔اور اگر ساتھ  انگریزی بولنے میں ماہر ہو اور اس کے ساتھ مغربی رہن سہن بھی شامل کر لیا جائے تو آپ ماڈرن کے اولین درجے پر فائز ہوتے ہیں ۔کیا کبھی آپ نے سوچا اسلام سے زیادہ جدید کوئی دین کوئی قوم نہیں ہو سکتی۔ قرآن میں آج سے چودہ سو سال  پہلے وہ باتیں اور تحقیقات بتائی جا چکی ہیں جو آج سائنس سچ ثابت کر رہی ہے ۔ہر وہ بات جو ہمارے لیے فائدہ مند اور آسانی کا باعث بنتی ہے وہ اسلام میں بیان کی گئی ہے کبھی آپ نے غور کیا ہر وہ چیز جس کی اسلام میں ممانعت ہے وہ مغربی تہذیب کا حصّہ اور فیشن کیوں ہے ۔اسلام میں عورت کو جِسم ڈھانپنے کا حْکم ہے اور مغربی تہزیب جِسم دکھانے کو فیشن بنا چکی ہے۔فیشن تو جِسم ڈھانپنے کو بھی بنایا جا سکتا ھے ۔اسلام نے مردوں کو ٹخنے ڈھانپنے سے منع کیا اور عورتوں کو مکمل ڈھانپنے کا حْکم دیا۔مغرب نے اس چیز میں بھی اسلام کی مخالفت کی اور عورتوں کے برہنہ لباس کو رواج بنا دیا۔ ہمیں اس سب کے لیے مجبور نہیں کیا جا رہا لیکِن ہماری سوچ اور جِسم پر مغربی تہذیب اس حد تک  قابض ہو چْکی ہے کہ ہم احساسِ کمتری میں مبتلا ہوتے جا رھے ھیں۔ افسوس تو اِس بات کا ہے کہ ہم اسلام کے پیروکار ہوتے ہوئے بھی اندھا دھند مغرب کی تقلید کر رھے ھیں۔میرا عنوان صرف لباس اور زبان ہے۔اگر دیکھا جائے تو ہمارے رہن سہن ،کھانے پینے ہر چیز میں مغرب کی حکمرانی ہے ۔آج مغربی تہذیب کی ترقی کا راز اپنے کام خود کرنے اور اپنی تہذیب کو اپنانے میں ہے۔ہم قرآن سے زندگی گذارنے کا سبق نہیں لے سکے لیکِن مغرب نے ہمارے دین سے سارے قیمتی راز جان لیے ۔مغرب نے صبح بیداری کو اپنا کر اپنی ترقی کا راستہ چنا جبکے ہم نے صبح سویرے اٹھنے کے حْکم سے منہ پھیر کر دیر سے اٹھنیکو اپنے لیے باعث فخر ٹھہرایا۔ ہمارے پاس قرآن جیسی طاقت ہونے کے باوجودِ خود اعتمادی کی جگہ احساس متری نے لی ہوئی ہے ۔مجھے اکثر یہی جواب ملتا ہے کہ دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے انگریزی ہماری مجبوری ہیاور انگریزی بین الاقوامی زبان ہے۔ کیا مغربی لباس کو اپنانا اور اْسکے بارے میں ماڈرن ہونے کی رائے قائم کرنا بھی ہماری مجبوری ہے۔کیا انگریزی رہن سہن اپنانا بھی ہماری مجبوری ہے۔بلکل بھی نہیں ۔انگریزی زبان سیکھنا جرم نہیں مگر اسکو اس حد تک اہمیت دینا کہ دوسروں کی ذہانت کا انداز اس سے لگایا جائے یہ غلط ہے ۔اگر آپکو اپنے لباس اور زبان پہ فخر ہو تو احساسِ کمتری کی جگہ خود اعتمادی ہوتی اور آپ زبان اور لباس سے لوگوں کو جج کرنا چھوڑ دیتے ۔لوگوں کہ دیہاتی اور شہری ہونے کا اندازہ لباس سے نہ لگا رہے ہوتے۔لوگوں کی ذہانت کا انداذہ انگریزی لہجے اور انگریزی زبان سے نہ لگا رہے ہوتے آج ہم پنجابی اور اردو نہ آنے پر فخر محسوس نہ کرتے ۔اپنا قومی لباس پہننے میں فخر محسوس کریں۔کیوں کہ آپ قومی لباس کو اپنا کر بھی اپنی شخصیت کی بہتر نمائندگی کر سکتے ہیں۔ ہمیں شلوار قمیض پہننے کا بھی صحیح سے ڈھنگ ہو تو ہم بہتر سے بہترین نظر آ سکتے ہیں ۔اپکو خوبصورت دکھنے کے مغربی تہذیب کو اپنانا ضروری نہیں۔ زبان سے لوگوں کو جج کرنا ہم نے اپنا فریضہ سمجھ لیا ہے۔پنجابی بولنے والے کو پینڈو کا لقب دینے میں ہم ذرا دیر نہیں لگاتے ۔پنجابی بھی اسی طرح زبان ہے جس طرح باقی زبانیں ہیں۔زبان سیکھیں جو بھی آپکی ضرورت ہو لیکن اپنی سوچ بدلیں ۔اپنی قومی زبان اور لباس کو اپنے لیے باعث فخر بنائیں ۔اپنی شخصیت کو آپ اپنے لباس سے بھی نکھار سکتے ہیں۔ اپنی زبان کو استعمال کر کے بھی دوسروں کو متاثر کر سکتے ہیں۔زبان میں اتنی مٹھاس پیدا کریں کہ سننے والا بار بار سننا چاہے ۔اپنی شخصیت کو اتنا پرکشش بنائیں کہ جو ایک بار ملے بار بار ملنے کی تمنا کریں ۔اپنے اٹھنے ،بیٹھنے ہر چیز میں وقار پیدا کریں۔ورزش کو اپنی زندگی کا حصّہ بنائیں۔اپنی شخصیت کو نکھارنے میں اپنی مدد آپ کریں نہ کہ مغربی تہذیب کی اندھا دھند تقلید۔خود کو جدیدیت کہ معیار پر لانیکی کوشش میں اپنی پہچان مت گنوائیں۔آپ آج اْردو بولنا چھوڑ دیں گے جیسے پنجابی بولنا تقریباً لوگ چھوڑ ہی چکے ہیں۔پھر قومی لباس بھی چھوڑ دیں گے تو کیا پہچان رہ جائوگی آپکی۔کیا آپ خود کو جسمانی اور ذہنی طور پر آذاد محسوس کر سکیں گے۔بلکل بھی نہیں۔ہماری پہچان ہمارا رہن سہن،ہماری تہذیب،ہمارینظریات ہونے چاہئے۔یہی آزادی ہے یہی ہماری پہچان ہے۔ہمیں سوچنا ہے اور یقین کرنا ہے اس بات پر کہ انگریزی صرف ایک زبان ہے اسکی ایجاد بھی ہماری زبان اْردو،پنجابی اور باقی سب زبانوں کی طرح ہوئی اْس کے اختراع کے پیچھے کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے۔ہمیں یقین کرنا ہے۔ اس بات پر کہ ہماری شخصیت کی تکمیل کے لیے مغربی تہذیب کو اپنانا ضروری نہیں ۔ہمارا لباس ہمارا رہن سہن ہماری زبان ہماری پہچان ہے ہمارا فخر ہے۔آزاد رہیں۔آزاد سوچیں ۔آزادی بہت بڑی نعمت ہے۔

مزیدخبریں