مالدیپ کا بھارت کو الٹی میٹم اور بنگلہ دیشی انتخابات 

 14 جنوری کو صدر مالدیپ محمد معیزہ اپنے چناؤ کے بعد پہلے دورہ چین سے واپس لوٹے ۔ بیجنگ میں اختتامی لمحات میں انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے  بھارتی فوج کو 15 مارچ تک مالدیپ سے نکلنے کا حکم دیا، آج کی دنیا میں   مالدیپ بھارت کشیدگی کا یہ سب سے بڑا قدم سمجھا جارہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت کے 100 فوجی اس وقت مالدیپ میں موجود ہیں۔ صدر محمد معیزہ نے اپنے پیغام میں بھارتی وزیراعظم مودی کو ’’جوکر‘‘ کہہ کر پکارا۔ حیرت  ہے کہ اتنے سخت سربراہ مملکت کے بیان پر بھارتی وزارت خارجہ فوری ردعمل نہ دے سکی ،صدر مالدیپ کے کامیاب دورہ چین اور صدر شی جن پنگ سے ملاقات کو دنیا بھر میں کوریج ملی تاہم مالدیپ سے متعلق فوج کے انخلاء کے الٹی میٹم کو اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا نے غیرمعمولی کوریج دی۔
 یہ درست ہے کہ بھارت کے پڑوسیوں سے تعلقات کسی دور میں بھی مثالی نہیں رہے۔ سری لنکا میں معاشی خانہ جنگی کے پس پردہ بھارتی مکارانہ پالیسیاں تھیں خود پاکستان اپنے قیام سے اب تک بھارت کی ’’مہربانیوں‘‘ کا شکار رہا۔ بلوچستان اور صوبہ خیبر میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ’’را‘‘ کے شامل ہونے کے ثبوت بھی عالمی میڈیا کے سامنے رکھے جا چکے ہیں۔ بھارتی بحریہ کے حاضر سروس آفیسر کلبوشن کی بلوچستان سے گرفتاری بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ عالمی سطح پر مسلسل ہزیمت اٹھانے کے باوجود بھارتی حکومت نے خود کو بدلا نہ بھارتی فوج اپنی روش میں تبدیلی لائی۔ اب حالت یہ ہے کہ جزیرہ نما مالدیپ اپنے سے کئی گنا بڑے ملک اور ایٹمی ملک کو وارننگ دے رہا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ مالدیپ میں بھارتی مداخلت کئی بارریڈ لائن عبور کر چکی۔ یہ پہلا موقع نہیں جب بھارت نے آخری حدیں عبورکیں۔ اس سے قبل بھی مالدیپ کی سیاسی ‘ حکومتی اور عسکری قیادت اس قسم کی شکایت کر چکیں۔ دوسری طرف بھارت سبق لینے کی بجائے مداخلت کے سلسلے درازکرتا رہا، جنوبی ایشیاء میں چوہدارہٹ قائم کرنے کے خواب میں وہ پاگل پن کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے یہاں تک کہ بھارت پڑوسی ممالک کی خود مختاری اور سالمیت بھی نظر انداز کر دیتا ہے… پاکستان کی طرف سے وارننگ اور آزاد خارجہ پالیسی کا اثر ہے کہ اب پڑوسی ممالک بھی اپنے حقوق اور قومی سلامتی کا بھولا  ہوا سبق یاد آگیا ہے۔ جس طرح مالدیپ کی قوم اپنے صدر کی بہادری کی ستائش کر رہی ہے اسی طرح ہم بھی مالدیپ کی قیادت کو سیلوٹ پیش کرتے ہیںاب ہم دوسرے منظر میں  بنگلہ دیشی انتخابات کا ذکر کریں گے ۔آٹھ جنوری 2024ء کو بنگلہ دیش میں عام انتخابات کے رزلٹ نے جمہوریت پسند حلقوں کو حیران کر دیا، حکمران پارٹی عوامی لیگ نے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کے بائیکاٹ سے بھرپورفائدہ اٹھایا۔ 300 میں سے 223 نشتیں جیت کر غیر معمولی فتح اپنے نام کی۔ اب وزیراعظم حسینہ واجد آئندہ پانچ برس تک وزارت عظمی کے عہدہ جلیلہ پرفائز رہیں گی گویا 2029ء تک عوامی لیگ اور اس کی اتحادی جماعتیں اقتدار کا جھولا جھولیں گی۔2018ء کے الیکشن میں 80 فیصد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ اس بار ٹرن آوٹ میں حیرت انگیزطور پر 50 فیصد کمی رہی۔ عام انتخابات اور اس کے یکطرفہ رزلٹ کے خلاف بنگلہ دیش میں مظاہرے ہورہے ہیں احتجاجی لہر کادائرہ مسلسل پھیل رہا ہے جبکہ حکمران جماعت سب اچھا کی رپورٹ کے ساتھ چین کی بانسری بجا نے میں مصروف ہے ۔بنگلہ دیش کے قومی  انتخابات اور اس کے نتائج میں چھپا سبق یہ ہے کہ عوامی رائے کے خلاف فیصلے عارضی ہوتے ہیں جن کی قیمت ملک وقوم کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ دنیا بھر کے جمہوریت پسند حلقے اور مبصرین یہ سوال  کررہے ہیں کہ آخر کیوں ہر بار عوامی لیگ  ہی فتح سمیٹ رہی ہے؟ یہ عوامی محبت کا ثمر ہے  یا ریاستی خوف وجبر نے مرضی کے نتائج کے کانٹے بوئے۔ یاد رکھیں عوامی رائے سے متصادم سوچ اور فیصلے کمزور دھاگوں کی مانند ہوتے ہیں جو کسی وقت بھی ٹوٹ سکتے ہیں۔وطن عزیز میں بھی 12 ویں عام انتخابات کامیدان سج چکا ہے 8 فروری کو 11 کروڑ ووٹرز اپنی اپنی پسند کی جماعتوں اور امیدواروں کو ووٹ گفٹ کریں گے ! سوال یہ ہے کہ آخر وہ جماعتیں ووٹرز کی محبت کا بدلہ اسی محبت سے دیں گی جس طرح کا انہیں مینڈیٹ ملا؟ ماضی میں تو ایسا نہیں ہوا کیا آئندہ ایسا ہوگا؟ آج مہنگائی ‘ بے روزگاری اور امن وامان کی ’’تسلی بخش‘‘ صورت حال ان ہی جماعتوں اور سیاست دانوں کی’’ وطن دوستی اور عوام دوستی‘‘ کا نتیجہ ہے!
8 فروری نزدیک ہے ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور مقتدر اداروں کا فرض ہے کہ وہ تمام جماعتوں کو یکساں انتخابی میدان مہیا کریں ۔ ووٹرزآزادانہ ماحول میں خود فیصلہ کرسکیں کہ وہ کس پارٹی کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ’’ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو‘‘ کے مصداق عوام کا صائب فیصلہ ہی قومی حالات کو درست کرنے کا ذریعہ بنے گا اور اگر وہ ’’فیصلہ سازی‘‘ کے لی بضد رہے تو پانی سر سے اوپر چلا جائے گا جس کے نتائج ہم 1971ء اور 1985ء کے انتخابات کے بعد دیکھ چکے ہیں ’’ہم نیک وبد جناب کو  سمجھائے دیتے ہیں ‘‘

ای پیپر دی نیشن