بلائنڈ کرکٹرز کا میچ علیم ڈار اکیڈمی میں

 علیم ڈار اکیڈمی میں چار شہروں سے آئی ہوئی ٹیمیں آزاد کشمیر ،حیدر آباد ،لاہور اور پشاور کرکٹ کلب آف دی بلائنڈ کے میچز ہوئے تھے۔۔۔15 جنوری2024ء کو ٹورنامنٹ کا آغاز ہوا تھا اور18 جنوری2024ء کو فائنل میچ ہونا تھا جس میں لاہور اور آزاد کشمیر کی ٹیمیں پہنچی اور آزاد کشمیر کی ٹیم نے فائنل جیت لیا۔ تو رخسانہ قیوم نے مجھے مدعو کیا جو جسٹس قیوم کی اہلیہ ہیں اور دوپہر ایک بجے انہیں انعامات سے نوازنا تھا۔ رخسانہ صاحبہ جو بہت عرصے سے میری دوست ہے۔ جب میں وہاں پہنچی تو ہلکی دھوپ کے نیچے شامیانے لگے ہوئے تھے اورسخت سردی تھی۔ مہمان گرامی مجھ سے پہلے ہی بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔ پاکستانی سنگر ابرار الحق بھی وہاں موجود تھے۔۔ ۔رخسانہ نے بڑی خندہ پیشانی سے میرا استقبال کیا اور مجھے اپنے قریب بٹھا لیا۔کھلی گرائونڈ کے سامنے میزوں پر کپس(Cups) شیلڈز جو نابینہ کرکٹروں اور مہمان گرامیوں کو دینی تھیں اور مائک پر کھڑے کومینٹیٹر(Commentator) سب کی آمد کے بارے میں بتا رہے تھے اور سب کا شکریہ ادا کر رہے تھے کہ آپ لوگوں کی آمد کی وجہ سے ان سب کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
میرے سامنے جنت الفردوس کے ادارے کے چھوٹے بڑے بچوں کی لائنیں میرے سامنے سے گزر کر پچھلی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔۔۔۔نہ صرف ان بچوں کے کھانے پینے ک بلکہ ان کی تعلیم حاصل کر نے کا پورا پورا خیال کیا جاتا ہے۔۔۔۔ بس اور سکول کا انتظام بھی کیا ہوا ہے صبح سکول جاتے ہیں شام کواپنے شیلٹر میں واپس آجاتے ہیں۔۔۔۔باقاعدہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور قرآن شریف بھی پڑھایا جاتا ہے۔۔۔ ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھا جاتا ہے۔
بچے بڑے ہی تمیز دار اور ان کے چہروں پرکسی حد تک اداسی ٹپک رہی تھی ۔ جنت الفردوس کے ادارے کے توسط سے غریب اور نادار بچوں کیلئے ماڈل ہائی سکول اور کالج برارکوٹ میں تعمیر ہوئے ہیں جہاں بچے زیر تعلیم ہیں۔
 لیکن رخسانہ قیوم کے کندھوں پہ ان کی ذمہ داری کا بوجھ بھی پڑا ہوا ہے اللہ کی خوشنودی کیلئے خوشی خوشی وہ بخوبی سر انجام دے رہی ہیں۔
ڈاکٹر خالد جمیل صاحب ٹانگوں سے معذور ہیں اور وہ اس محفل میں صاحب صدر تھے جو مہمان گرامی آئے سب کو انہوں نے شیلڈ سے نوازا اور انہوں نے کھلاڑیوں میں کپس تقسیم کئے اور سنگر ابرار الحق نے بھی ان میں کپس تقسیم کئے۔اور مجھے بھی بلایا گیا تو ڈاکٹرخالد جمیل سے میری بات ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ میںآپ سے بہت متاثر ہوئی ہوں آپ کا جذبہ بہت نیک ہے۔انہوں نے شکریہ ادا کیا۔ 
چلو یہ تو تھا کرکٹ میچ کا آنکھوں دیکھا حال لیکن میں یہ ضرور کہوں گی کہ بہت لوگوںکو میں جانتی ہوں جو نیکی کا کام کرتے ہیں اور اس افراتفری کے دور میں رخسانہ قیوم کا نام میں لوں تو سر فہرست ہو گا۔ میری آج ان کے ساتھ خصوصی ملاقات ہوئی میں نے اس سے پوچھا جب کئی سال پہلے میں نے دیکھا تھا کہ تم نے انسانیت کے جذبے کے تحت کام شروع کیا تھا جو چھوٹے پیمانے پر تھا۔ ماشااللہ یہ اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ اس کیلئے تمہیں بہت محنت کرنی پڑتی ہو گی۔
وہ بتانے لگی کہ میںفون کے ذریعے سب کام کرتی ہوں۔۔۔اور اللہ کی راہ میں کرتی ہوں میرے مشکل سے مشکل کام چٹکیوں میں ہو جاتے ہیں۔ وہ میں نہیں میرا اللہ مجھ سے یہ کام کرواتا ہے۔ 
 رخسانہ قیوم جو جنت الفردوس ٹرسٹ کا کام بھی کرتی ہیں بلکہ گھر پر بھی ان کا آفس ہے۔ جہاں غریب نادار خواتین آتی ہیں۔۔۔۔ان کی داستا ن غور سے سنتی ہیں اور ان کا درد بھی بانٹتی ہیں۔۔۔وقت اتنی تیزی سے گزر رہا ہے۔۔۔اور اس مصروف وقت میں صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے وہ وقت نکالتی ہیں۔۔۔۔اور یہ سوچ کر کام کرتی ہیں۔۔۔۔کہ اس دنیا کے آگے ایک اور دنیا ہے۔۔۔جہاں انسان کو موت ہی نہیں آنی۔۔۔۔آخرت کو سنوارنے کیلئے نیکی کے راستے پر چل نکلی ہیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری بہنیں جو فارغ وقت میںاگر چاہیں تو خدا کو راضی کرنے کیلئے بہت سے کام کر سکتی ہوں سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ اپنے گھر کے جو بچے ہیں ان کو صحیح تربیت دیں اور اچھا انسان بنائیں۔ اگر یہ جذبہ ان کے اندر ہو جائے خود بھی کریں اور اپنے بچوں کو بھی اس کام پر لگائیں کہ وہ اپنی پاکٹ منی سے غریب بچوں کی مدد کریں۔ 
رخسانہ ایک ایسا بہتا ہوا سمندر ہے۔ جس میں اس کا اپناجذبہ بھی بہہ رہا ہے اور اس جذبے کا کوئی ناپ تول تو ہے ہی نہیں اور اس میں کتنی گہرائی ہے کوئی نہیں جانتا ۔۔۔واقعی ہی وہ سمندر سے نکلا ہوا ایک نایاب گوہر ہے جس کی کوشش رنگ لاتی ہے۔۔۔اللہ اس پر اتنا مہربان ہے کہ غیب کی طرف اس کی مدد کرتا ہے۔۔۔۔اور وہ احسن طریقے سے اتنی مہنگائی کے دور میں لوگوں کی مدد کر رہی ہے۔۔۔۔انسانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ بھرا ہے۔۔۔۔ہر بات میں اللہ کا شکر اور ہر کا م میں اللہ کی رضا کو مقدم جانتی ہے۔
اس ملک میں معیشت کا برا حال ہے۔۔۔۔غریب لوگ دو وقت روٹی کے محتاج ہیں۔۔۔۔ہر کوئی اپنے کاموں میں مصروف ہے۔۔۔۔کسی کو کسی کی ہوش نہیں ہے۔۔۔۔اللہ کے فرمان کو لوگ بھول گئے ہیں کہ انسان دوسرے انسان کی مدد کرے۔۔۔لیکن ہماری قوم بے حس ہو چکی ہے۔۔۔مدد تو ایک طرف ایک انسان تو دوسرے انسان کو کھاتا پیتا دیکھ نہیں سکتا۔۔۔۔بعض لوگوں میں حسد اس قدر ہوتا ہے کہ بار بار اللہ سے شکایت کرتے ہیں کہ تم نے اس کو اس قدر نوازا ہے اور مجھے کچھ نہیں دیا۔۔۔۔یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ بندوں کی نیتوں کو دیکھ کر نوازتا ہے۔۔۔۔آخرت میں لوگوں کے اعمال نیتوں سے جانچے جائیں گے۔
عزت اور رزق کا انحصار صرف اللہ کی مہربانی پر ہے لیکن اگر بندے اللہ کی مخلوق پر مہربانی کرتے رہیں تو رب ان لوگوں پر مہربان ہو گا۔ فلاحی کاموں کیلئے وقت نکالیں لوگوں کا اس مہنگائی میں درد بانٹیں اور ان کے بہتر روزگار کیلئے اگر خود ان کے وسائل نہیں تو لوگوں سے چندے کی اپیل کریں۔۔۔۔ تاکہ۔۔۔۔ کچھ تو غریب خاندانوں کو سہارہ ملے۔
میرے خیال سے رخسانہ نیکی کے کام کر رہی ہے۔۔۔ ۔اللہ نہ جانے اس کو کتنا اجر دے گا۔

ای پیپر دی نیشن