پاکستان کرکٹ ناتجربہ کار افراد کے ہاتھوں میں ہے!!!

حافظ محمد عمران
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیف سلیکٹر ہارون رشید کہتے ہیں کہ ملک میں کرکٹ ناتجربہ کار افراد کے ہاتھوں میں ہے، ٹیم سلیکشن ٹھیک نہیں تھی، کھلاڑی ذہنی انتشار کا شکار ہیں، کرکٹ بورڈ اور ٹیم مینجمنٹ میں ہونے والی تبدیلی بھی کھلاڑیوں کی کارکردگی پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران کرکٹ بورڈ میں ہونے والی تبدیلیوں سے کھلاڑی متاثر نہیں ہوئے، بدانتظامی بھی ہے اور فیصلے بھی میرٹ پر نہیں ہو رہے، نیوزی لینڈ کے خلاف ٹونٹی ٹونٹی سیریز میں ناکامی تشویش ناک ہے اگر یہی حالات رہے تو مستقبل میں ہمیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نجم سیٹھی کے دور میں بہتر فیصلے ہو رہے تھے، جونیئر کرکٹ کو منظم کیا جا رہا تھا، اچھے بھلے پلانز بن چکے تھے، کیسے کرکٹرز کی صلاحیتوں کو نکھارنا اور انہیں بڑے مقابلوں کے لیے تیار کرنا ہے اس حوالے سے مکمل منصوبہ بندی کر لی گئی تھی، اس وقت بھی یہی کھلاڑی تھے لیکن ٹیم کے نتائج اچھے تھے، غیر ملکی کوچنگ سٹاف کی خدمات حاصل کی گئی تھیں، غیر ملکی کوچز کسی بھی اہم فیصلے سے قبل کھلاڑیوں سے بات چیت کر کے انہیں قائل کرتے ہیں اور دلائل سے قائل کرنے کے بعد عملی طور پر آگے بڑھتے ہیں جب کہ ہمارے اپنے کوچز کھلاڑیوں پر اپنے فیصلے نافذ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں میں یہ کرتا رہا ہوں تم بھی یہ کرو، ایسے تو کوچنگ نہیں ہوتی، محمد حفیظ، یاسر عرفات، عمر گل اور سعید اجمل کے پاس کوچنگ کا کیا تجربہ ہے جو براہ راست قومی ٹیم ان کے حوالے کر دی گئی ہے، کیا ٹونٹی ٹونٹی لیگ میں کوچنگ کی بنیاد پر کسی کو قومی ٹیم کی کوچنگ دی جا سکتی ہے، ٹیم ڈائریکٹر کے عہدے بھی غلط سمجھا گیا ہے، حکمت عملی کو دیکھیں کہ ہم تین میچز میں ٹاس جیتے اور پہلے باؤلنگ کے لیے چلے گئے اس فیصلے کا پاکستان کو نقصان ہوا اور تینوں میچوں میں ہماری باولنگ کو بہت پٹائی ہوئی، کیا بیٹنگ پچز پر ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کہ جاتی ہے، پھر ٹیم سلیکشن کو دیکھیں، تین وکٹ کیپرز اور چھ اوپنرز شامل کر لیے، افتخار احمد صرف اکلوتے مڈل آرڈر بلے باز تھے، پھر فخر زمان کو دائرے کا فائدہ اٹھانے کے بجائے اسے مڈل آرڈر میں کھلایا جا رہا ہے، رضوان کی موجودگی میں کسی بھی وکٹ کیپر کی کیا ضرورت ہے، ماسوائے اس کے کہ وہ بہت ہی باصلاحیت کرکٹر ہو، سو یہ ساری خرابیاں حکمت عملی سے جڑی ہیں۔ آپ مخصوص بیٹنگ آرڈر کے سوا کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ ایک کھلاڑی ساری عمر اوپننگ کرتے آیا ہے آپ اسے اچانک کیسے مڈل آرڈر میں کھلا سکتے ہیں۔ پھر ڈومیسٹک کرکٹ میں اسی اسی رنز پر تیمیں آوٹ ہو رہی ہیں، اوپن ٹرائلز کے ذریعے ٹیموں کے انتخاب کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے یہ طریقہ کار تباہی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ کرکٹ بورڈ میں ہونے والی تبدیلیاں بھی کھیل کے لیے نقصان دہ ہیں، اگر تبدیلی آتی ہے تو کم از کم ہمیں کھیل کی بہتری کے لیے کیے گئے اچھے فیصلوں کو تو جاری رکھنا چاہیے۔ غیر ملکی کوچز کام کرتے رہتے تو بہتری کا امکان تھا۔
کھلاڑیوں پر غیر ضروری سختی کی خبریں سن رہا ہوں، یہ انٹرنیشنل کرکٹرز ہیں انہیں کس قسم کے پروٹوکولز میں الجھایا جا رہا ہے۔ کوچنگ ایک سائنس ہے اس میں پلیئرز مینجمنٹ کا بہت بڑا کردار ہے، محمد حفیظ تو بحثیت کپتان بھی اس میں ناکام تھے، اگر کوئی نمایاں کرکٹرز کوچنگ کرنا چاہتا ہے تو اسے نیچے سے یہ کام سیکھ کر آنا چاہیے، نچلی سطح پر کام کریں بھلے بورڈ انہیں بھاری معاوضہ دے لیکن ایک طریقہ کار ضرور ہونا چاہیے۔ پاکستان میں کلب کرکٹ نظر نہیں آ رہی نہیں اوپن ٹرائلز میں اگر کسی کا دن اچھا ہے اور کوئی کھلاڑی چند گیند اچھے کرتا ہے یا پھر وہ چند اچھی گیندیں کھیل لیتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے کہ وہ اچھا کھلاڑی ہے آپ کے پاس تو اس کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے۔ جس طرح تجربات کیے جا رہے ہیں ورلڈکپ میں کچھ زیادہ وقت نہیں بچتا تو کیا آپ عالمی کپ کے لیے ایک مرتبہ پھر صفر سے شروع کریں گے۔

ای پیپر دی نیشن