پاک ایران سفارتی تعلقات نیا موڑ اختیار کر گئے

عبدالستار چودھری 
پاکستانی فورسز کی جانب سے ایرانی جارحیت کے بھرپور جواب سے جہاں قوم کا مورال بلند ہوا ہے وہیں پاکستان کے اس موقف کی بھی تائید ہوئی ہے کہ ہمسایہ ممالک کی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال کی جا رہی ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی اور سیکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا ، ذرائع کے مطابق اجلاس میں عسکری قیادت، حساس اداروں کے سربراہان اور وفاقی وزرا بھی شریک ہوئے، اجلاس میں ایران کے ساتھ پیدا ہونے والی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔ قبل ازیں پاک  ایران کشیدگی کے باعث نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور نگران وزیر خارجہ  بیرون ممالک کے دورے مختصر کر کے وطن واپس پہنچ گئے۔پاک ایران کشیدگی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کے لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی طلب کیا گیا۔ واضح رہے کہ 17 جنوری کو ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود میں حملے کے نتیجے میں 2 معصوم بچے جاں بحق اور 3 بچیاں زخمی ہو گئی تھیں۔ ایران کی جانب سے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے 48 گھنٹے سے بھی کم وقت کے اندر پاکستان نے 18 جنوری کی علی الصبح ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا تھا جس میں متعدد دہشت گرد مارے گئے تھے۔ پاک فوج کی جانب سے بھرپور ردعمل دیے جانے پر پوری قوم نے عسکری اداروں کو خراج تحسین پیش کیا۔ اگرچہ ایرانی حکام کی جانب سے یہ دعوی کیا گیا تھا کہ پاکستانی میزائل حملوں میں مارے جانے والے افراد ایرانی نہیں تھے بلکہ دہشتگردوں کو نشانہ بنایا گیا ، اس کے باوجود دونوں ممالک  میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان نے ایران کے داغے گئے میزاء کے جواب میں نا صرف کاروائی کا حق استعال کیا بلکہ سفارتی   تعلقات کو فوراً معطل کر دیا۔
پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات اچانک کشیدہ صورت اختیار کرجانے پر نا صرف خطے بلکہ اس سے باہر کے ممالک کی توجہ بھی حالیہ واقعات کی جانب مبذول ہو گئی ہے،خطے کے دونوں ملکوںکے درمیان کشیدہ صورتحال کے براہ راست چین پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور سی پیک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے جس قسم کے پرامن ماحول کی ضرورت ہے، ایرانی جارحیت نے اسے مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے بعد پاکستان نے اس کا بھرپور جواب دیا۔ گزشتہ چند دنوں میں جو واقعات واقعات رونما ہوئے اس سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دنیا کی توجہ غزہ کے مسئلے سے ہٹ کر اس اشتعال انگیزی پر مرکوز ہو رہی ہے۔ 16 جنوری کی صبح سویرے ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود میں حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 2 معصوم بچے جاں بحق اور 3 بچیاں زخمی ہوگئیں۔ دفتر خارجہ نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایرانی ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں طلب کیا۔ جب کہ ملک کی سیاسی قیادت کی طرف سے ایران کے اس عمل پر اظہار مذمت بھی کیا گیا۔دوسری جانب ایران کی جانب سے اس  حملے پر کسی معذرت کے بجائے الٹا اسے درست اقدام بھی قرار دیا گیا۔ جس پر 17 جنوری کی شام پاکستان کوایران سے سفیر واپس بلانے اور تمام اعلیٰ سطح کے تبادلے معطل کرنے کا اعلان  کرنا پڑا ۔ساتھ ہی پاکستان میں ایران کے سفیر، جو اس وقت ایران میں ہی ہیں، ان کو بھی پاکستان واپس نہ آنے کا کہہ دیا گیا۔
 ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورمز کی سائیڈلائنز پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فضائی حملوں میں پاکستان کے کسی شہری کو نہیں بلکہ ایرانی دہشت گرد گروپ ’جیش العدل‘ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔بدھ کی رات کو نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی سے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں پاکستان میں ایران کے حملے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ معقول جواب نہ ملنے پر18 جنوری کی علی الصبح پاکستان نے ایران کی جانب سے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے 48 گھنٹے سے بھی کم وقت کے اندر ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کر کے بظاہر حساب برابر کر دیا ہے  جس میں متعدد دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ دفتر خارجہ کے مطابق دہشت گردانہ سرگرمیوں کی مصدقہ معلومات کی روشنی میں اپریشن کیا گیا۔ آئی ایس پی آر نے کہا کہ ایران میں بلوچستان لبریشن آرمی اور لبریشن فرنٹ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ دوسری جانب ایرانی حکام نے بھی دعویٰ کیا کہ حملے میں 3 خواتین، 4 بچوں سمیت 9 افرادمارے گئے اور مارے جانے والے تمام افراد غیر ایرانی تھے۔پاک ایران کشیدگی کے بعد چین کی جانب سے پاکستان، ایران کے درمیان ثالثی کی پیشکش بھی کی گئی تاہم اس پیشکش کا فریقین کی جانب سے ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا۔ ادھر امریکا نے پاکستان، عراق اور شام میں ایران کے حملوں پر اظہار مذمت کرتے ہوئے واضح کیا کہ ایران نے 3 ہمسایہ ممالک کی خودمختار سرحدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔افغانستان اور روس کی طرف سے بھی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی کے معاملے پر قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس  پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کا کا ضامن ہے۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، نیول اور سربراہ پاک فضائیہ کے علاوہ انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر بھی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ اجلاس میں پاکستان اور ایران کی تمام تنازعات کے سفارتی حل پر بات چیت کی گئی۔ نگراں وزیرخارجہ نے سفارتی محاذ اوراعلی عسکری حکام نے پاک ایران سرحدی صورتحال پر مفصل بریفنگ دی، فورم نے ایرانی جارحیت کے جواب میں موثر کارروائی پر مسلح افواج کو خراج تحسین پیش کیا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کا ہر قیمت پر تحفظ کرنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔
اس موقع پر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے، تمام ہمسائیوں سے امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ پاک۔ ایران کشیدگی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کے لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی طلب کیا گیا۔ پاک فوج کی جانب سے ایرانی جارحیت کا بھرپور جواب دیے جانے پر پوری قوم نے عسکری اداروں کو خراج تحسین پیش کیا۔ اگرچہ ایرانی حکام کی جانب سے یہ دعوی کیا گیا تھا کہ پاکستانی میزائل حملوں میں مارے جانے والے افراد ایرانی نہیں تھے بلکہ دہشتگردوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس سے ایک جانب تو پاکستان کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف افغانستان کے بعد ایرانی سرزمین بھی استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی کی صورتحال کے بعد دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ بھی ہوا۔ دفتر خارجہ نے اس رابطے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جلیل عباس جیلانی اور ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے درمیان ہونے والے ٹیلیفونک رابطے میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے حالیہ تنائو ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس سے قبل ترجمان دفتر خارجہ نے پاکستان اور ایران کے درمیان مثبت پیغامات کے تبادلے کی بھی تصدیق کی ہے ۔دونوں برادر ممالک  کے درمیان  ان کشیدہ واقعات سے پاکستان کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف افغانستان کے بعد ایرانی سرزمین بھی استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان اور ایران کے  وزرائے خارجہ کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے۔پاکستان کے ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ رحیم حیات قریشی نے ایرانی ہم منصب سید رسول موسوی کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ "ایکس" پر جواب دیا تھا کہ آپ کے جذبات کا جواب دیتا ہوں پیارے بھائی رسول موسوی۔ ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ نے ایرانی سفارتکار سے کہا کہ پاکستان اور ایران کے برادرانہ تعلقات ہیں، مثبت بات چیت کے ذریعے تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے، دہشتگردی سمیت ہمارے مشترکہ چیلنجز کے لیے مربوط کارروائی کی ضرورت ہے۔ایرانی سفارتکار نے کہا کہ دونوں ممالک کے رہنما اور اعلی حکام جانتے ہیں حالیہ تنائو کا فائدہ دشمنوں اور دہشتگردوں کو ہوگا، آج مسلم دنیا کا اہم مسئلہ غزہ میں صیہونیوں کے جرائم بند کروانا ہے۔

ای پیپر دی نیشن