پاکستان اور ایران کے درمیان تناؤ کی صورتحال کے بعد پیغامات کا تبادلہ مثبت پیشرفت ہے ۔ ترجمان دفتر خارجہ نے بھی پاکستان اور ایران کے مابین مثبت پیغامات کا تبادلے ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ پاکستان کے ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ رحیم حیات قریشی نے ایرانی ہم منصب سید رسول موسوی کو جواب دیا کہ آپ کے جذبات کا جواب دیتا ہوں پیارے بھائی رسول موسوی ، ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ نے ایرانی سفارتکار سے کہا کہ پاکستان اور ایران کے برادرانہ تعلقات ہیں ، مثبت بات چیت کے ذریعے تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے، دہشتگردی سمیت مشترکہ چیلنجز کے لیے مربوط کارروائی کی ضرورت ہے۔ ایرانی سفارتکار نے کہا کہ دونوں ممالک کے رہنما اور اعلیٰ حکام جانتے ہیں حالیہ تناؤ کا فائدہ دشمنوں اور دہشتگردوں کو ہو گا، آج مسلم دنیا کا اہم مسئلہ غزہ میں صیہونیوں کے جرائم بند کرنا ہے۔
یہ پیشرفت اس لحاظ سے ضرور اہم ہے کہ پاکستان ہمیشہ ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمسایہ ممالک کی طرف سے اکثر و بیشتر پاکستان کی طرف سے امن کی خواہش کو شاید کمزوری سمجھا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ مختلف معاملات میں پاکستان کے پاس معلومات کی کبھی کمی نہیں رہی۔ پاکستان اور ایران کے مابین کشیدگی کی وجہ ایران کی طرف پاکستانی حدود کی خلاف ورزی تھی اس معاملے میں بھی پاکستان کے پاس مصدقہ اطلاعات کی کمی کبھی نہیں تھی لیکن پاکستان نے باوجود بھاری نقصان کے کبھی اس حوالے سے پہل نہیں کی لیکن ایران نے پہل کی اور پھر پاکستان نے اس کا بھرپور جواب بھی دیا۔
دنیا کو شاید کوئی غلط فہمی ہے کہ پاکستان کی طرف سے امن کے معاملے میں نسبتا نرم رویہ کہیں کوئی کمزوری ہے پاکستان بوقت ضرورت اپنی دفاعی طاقت و قوت کا اظہار کرتا آیا ہے جب ابھی نندن کا طیارہ گرایا گیا اور اس کے بعد چند روز تک جیسے پاکستان نے اپنی فضائی، زمینی اور سمندری حدود کا دفاع کرتے ہوئے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا وہ عام لوگوں کو تو شاید یاد نہ ہو نہ ہی لوگ اس کی تفصیلات سے واقف ہوں لیکن پاکستان کی بہادر افواج نے ان دنوں جس جرات و بہادری کے ساتھ دشمن کی کارروائیوں کو ناصرف ناکام بنایا بلکہ دنیا کو یہ بتا دیا تھا کہ اگر کوئی بھی ملک کبھی پاکستان کہ آزادی و خود مختاری کے معاملے میں حدود سے تجاوز کرے گا اس کا منہ توڑا جائے گا ۔ جن لوگوں کو ابھی نندن والی کارروائی کا احساس ہونا تھا وہ آج بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کے دفاعی ادارے ایسی کارروائیاں کرنے والوں کی طبیعت بہت اچھے سے صاف کرتے ہیں۔ اب ایران نے وہی غلطی دہرائی ہے پاکستان کے پاس یہ معلومات پہلے سے موجود تھیں کہ ایرانی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے اور گذشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکوں کا حصہ بننے والے کئی کمانڈرز کو قومی دھارے میں شامل کیا ہے اور ان کمانڈرز نے واضح طور پر یہ بتایا ہے کہ انہیں بھارت سے فنڈنگ ہوتی ہے۔ اب ایران سے بی ایل اے آپریٹ ہو، بھارت سے ان دہشت گردوں، عسکریت پسندوں کی مالی معاونت ہو تو کیا یہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں ہے۔ پاکستان نے ان تمام حالات اور معلومات کے باوجود بہت تحمل مزاجی سے کام لیا، نقصان برداشت کیا لیکن ایرانی حدود، عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی نہیں کی۔ حالانکہ بی ایل اے کی کارروائیوں کا ہمیں بہت نقصان ہوا ہے، بھارت ان تمام سازشوں میں مرکزی کردار ہے اور ایران نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ پاکستان نے گذشتہ روز اس کا بھرپور جواب دیا ہے ۔ آپریشن "برگ بر سرمچار" ایران میں بیٹھے دہشت گردوں کے خاتمے تک جاری رہے گا۔ ایران کو بھی احساس ہو گا کہ اسے پاکستان کی نرمی کا فائدہ اٹھانے کی ناجائز کوشش کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ ویسے اس مشکل صورت حال میں پاکستان کے اندر سے گذشتہ دو روز میں بہت سے لوگوں کے چہرے بھی بے نقاب ہوئے ہیں۔ بہت لوگوں نے ایران کی طرف سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی پر لوگوں نے ایک خاص سیاسی سوچ کے تحت اپنے ہی دفاعی اداروں پر تنقید شروع کر دی اب ان عقل کے اندھوں کو بھی جواب مل گیا ہے۔ ہمیں اس وقت سیاسی طور پر تقسیم ہونے کے بجائے متحد ہونے کی ضرورت ہے، جب قومی سلامتی کا معاملہ ہو تو اسے سیاسی وابستگی سے آزاد ہو کر دیکھنا چاہیے۔
آپریشن مرگ بر، سرمچار انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن ہے۔مرگ بر ایران کی سرکاری زبان فارسی کا لفظ ہے جس کے معنی ’مردہ باد، تباہی اور موت کا آنا‘ ہیں اور سرمچار بلوچی لفظ ہے جس کے معنی 'سر قربان کرنے والا' یا 'جان نثار کرنے والا' ہے۔ بھارتی فنڈنگ پر پلنے والے بلوچ دہشت گرد یہ لفظ اپنے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اب اس آپریشن کے ذریعے ناصرف بھارتی سازشیں بے نقاب ہوں گی بلکہ ایران میں بیٹھے ان عسکریت پسندوں کو بھی ٹھکانے لگایا جائے گا۔ یہ جتنے بھی سرمچار ہیں پاکستان کا امن خراب کرنے والے اور معصوم پاکستانیوں کی قیمتی جانوں کا نقصان کرنے والے منطقی انجام کو پہنچیں گے۔ بھارت کی فنڈنگ پر یہ دہشتگرد بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہا رہے تھے۔ بجائے اس کے کہ ایران خود ان کے خلاف کارروائی کرتا اس نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔ پاکستان کے لیے تو یہ بہت اچھا ہوا ہے اور پنجابی کی ایک مثال ہے " کبے نوں لت راس آ گئی" پاکستان کو اپنے دشمنوں کا ختم کرنے کا بہترین موقع ملا ہے۔ برسوں سے پاکستان کو نقصان پہنچانے والے افراد کو ٹھکانے لگانے سے بلوچستان میں پھیلی بدامنی کو ختم کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ بلوچستان میں پائیدار امن سے ترقی کا نیا سفر بھی شروع ہو سکتا ہے۔ وسائل سے محروم بلوچ قبائل کی زندگی بھی بہتر ہو گی۔ ایران کی طرف سے شروع کی گئی "شر" کی اس کارروائی سے پاکستان کے لیے بہرحال خیر برآمد ہو سکتی ہے۔
پاکستان نے بلوچستان پر حملے کے جواب میں گذشتہ روز ایران کے صوبے سیستان میں دہشتگردوں کی مخصوص پناہ گاہوں کو نشانہ بنا کر متعدد دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا ہے ۔ یہ دہشت گرد ایران کے حکومتی عمل داری سے محروم علاقوں میں مقیم تھے، ایرانی کی طرف سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی جوابی کارروائی پاکستان کے تمام خطرات کے خلاف قومی سلامتی کے تحفظ اور دفاع کاغیر متزلزل عزم ہے۔ پاکستان اور ایران کے مابین کشیدگی پر دنیا کو پریشانی ہے اور امریکا نے ایران کی جانب سے پاکستانی علاقے پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے تین ہمسایہ ممالک کی خود مختار سرحدوں کی خلاف ورزی کی، ایران خطے میں دہشتگردی کا سب سے بڑا سپانسر ہے اور ایران کی وجہ سے ہی امریکا عراق میں موجود ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے بھی پاکستان ایران کشیدگی پر ردعمل آیا ہے۔ کراچی میں تعینات چینی قونصلر جنرل یانگ یوڈونگ نے پاکستان اور ایران کے درمیان ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے دونوں ممالک سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی۔ روس بھی اس صورت حال میں خاموش نہیں ہے۔ روس نے دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا ہے۔ کہ ایس سی او کے دوست ممالک کے درمیان کشیدگی افسوسناک ہے۔ افغانستان اور ترکی نے بھی پاکستان اور ایران کے مابین کشیدگی پر تشویش اور دونوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا ہے۔
پاکستان کی یہ کارروائی بھارت سمیت تمام اندرونی و بیرونی دشمنوں کے لیے بھی پیغام ہے کہ ہماری امن کی خواہش کو بھول کر بھی کمزوری نہ سمجھیں ، ہمارے پاس معلومات بھی ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے، کہاں سے کر رہا ہے اور کس کے کہنے پر کر رہا ہے۔ کسی کو غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ پاکستان اور ایران کے رابطے بحال ہونے چاہییں دنیا کے مختلف ممالک نے اس معاملے میں دلچسپی و سنجیدگی کا مظاہرہ بھی کیا ہے لیکن پاکستان کے ہمسایہ ممالک کو یہ احساس ضرور کرنا ہو گا کہ اگر پاکستان میں بدامنی پھیلانے کی کوششیں ہوں گی تو یہ بدامنی صرف پاکستان تک تو محدود نہیں رہے گی یہ آگ سب کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔ بہتر یہ ہے کہ آگ لگانے سے پہلے سوچیں۔ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے اور پائیدار امن کے لیے سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جہاں تک بھارتی پیسے پر پلنے والے عسکریت پسندوں کا تعلق ہے انہیں منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔ وہ کہیں بھی چھپے ہوں اس معاملے میں کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔
آخر میں اتباف ابرک کا کلام
سر یہ ہر حال جھکا ، ہم نے قناعت کی تھی
اک تری بار ہی بس رب سے شکایت کی تھی
اس قدر سخت سزا بھی تو نہیں بنتی تھی
ہم نے بچپن سے نکلنے کی شرارت کی تھی
ہوش والوں کی نہ باتوں میں ہمی آئے کبھی
ورنہ ہر اک نے سنبھلنے کی ہدایت کی تھی
معتبر تھے کبھی دنیا کی نظر میں ہم بھی
پھر ہوا یوں کہ مری تم نے حمایت کی تھی
ہم نے مانا کہ چلو مرکزی مجرم ہم ہیں
کچھ دنوں تم نے بھی تو ہم سے محبت کی تھی
بے وفاؤں سے وفا خبط ہے لا حاصل سا
ہمیں معلوم تھا پھر بھی یہ حماقت کی تھی
نفع نقصان کی باتیں نہیں جچتی ہم کو
ہم نے کب یار ترے ساتھ تجارت کی تھی
مبتلا تازہ ہے تو، خوش ہے محبت سے تو سن
اس نے آغاز میں ہم پر بھی عنایت کی تھی
کیوں زبانوں پہ فقط نام ترا ہے ابرک
تم سے پہلے بھی تو کتنوں نے بغاوت کی تھی
آگ لگانے سے پہلے سوچیں!!!!!
Jan 20, 2024