شیر ہمارا مجمع دیکھ کر گھر میں گھس گیا، ڈٹ کر مقابلہ کرینگے: بلاول

Jan 20, 2024

رحیم یار خان‘ خان پور‘ لیاقت پور‘ اسلام آباد (بیورو رپورٹ‘ نامہ نگار‘ خبر نگار‘ نمائندہ نوائے وقت ‘ نوائے وقت رپورٹ) چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اقتدار میں آ کر انکی اولین ترجیح غربت کا خاتمہ ہے جس کے لئے وہ سب سے پہلے سترہ اضافی وفاقی وزارتیں ختم کریں گے جس سے 300 ارب روپے جبکہ اشرافیہ کو دی جانے والی سبسڈیز بھی ختم کریں گے جس سے ایک ہزار500ارب روپے کی بچت ہو گی۔ گزشتہ روز خان بیلہ کے مقام پر ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ آج جنوبی پنجاب کی سرزمین پر کھڑے ہو کر لاہور کے سیاست دانوں کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ان کا ڈٹ کا مقابلہ کریں گے اور سیاست کے ہر میدان میں ان کا مقابلہ کریں گے تاکہ غریب عوام کو ان کے حقوق دیئے جا سکیں۔ پی پی پی پاکستان کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو ایک منشور پر الیکشن لڑ رہی ہے جبکہ باقی جماعتیں صرف کھوکھلے نعروں کے ذریعے عوام کو لولی پاپ دے رہے ہیں۔  پی پی پی نے عوام کو غربت سے نجات دینے کے لئے ایک دس نکاتی ایجنڈا تیار کیا ہے جو سابقہ وزیر اعظم کی طرح جھوٹے وعدوں پر مشتمل نہیں ہو گا  جس میں عوام کو ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دینے کا جھوٹا وعدہ کیا گیا تھا۔ ان انتخابات میں اصل مقابلہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور سابق صدر ضیاء الحق کے جانشینوں کے درمیان ہے اور انہیں یقین ہے کہ عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کے جان نشینوں کے حق میں فیصلہ دے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں یقین ہے کہ چوتھی دفعہ وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھنے والے اگر خدانخواستہ وزیر اعظم بن بھی گئے تو وہ ایک بار پھر کہیں گے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔ شیر ایک بار پھر عوام کا خون چوسنا چاہتا ہے اس لئے وہ جنوبی پنجاب کے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان کا ساتھ دیں تاکہ وہ لاہوری سیاستدانوں کو ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اگر اللہ نے انہیں موقع دیا تو وہ پنجاب کے ہر ضلع میں ایک بہترین طبی سہولتوں کا حامل ہسپتال اور ایک یونیورسٹی قائم کریں گے تاکہ عوام کو تعلیم اور صحت کی بہترین سہولتیں میسر آ سکیں۔ قبل ازیں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پی پی پی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم سید احمد محمود نے کہا کہ پی پی پی عوامی امنگوں کی ترجمان ہے اور توقع ہے کہ آمدہ انتخابات میں پی پی پی ملک گیر کامیابیاں حاصل کرے گی۔ انہوں نے ضلع بھر سے تعلق رکھنے والے پی پی پی کے امیدواروں کا سٹیج پر بلوا کر بلاول بھٹو زرداری سے ان کا تعارف کروایا اور عوام سے انہیں ووٹ دینے کی اپیل کی۔ جلسے سے سابق وفاقی وزراء مخدوم شہاب الدین، مخدوم غلام مرتضیٰ، مولانا حامد سعید کاظمی کے علاوہ قاضی احمد سعید، سردار غضنفر علی لنگاہ  اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ دریں اثناء بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ن لیگ کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیں گے۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے عام انتخابات 2024ء کے بعد حکومت سازی کی پارٹی پالیسی بیان کردی۔ انہوں نے ن لیگ کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے امکان کو رد کردیا اور کہا کہ ایک شخص کے ہاتھوں دو بار بے وقوف بننا شرمناک ہوگا۔ پی پی پی چیئرمین نے مزید کہا کہ ہم آزاد اراکین کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے، یہ مذاق ہے جو کہتے ہیں سیاست کو قربان کیا مگر ریاست کو بچایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاناما ایک حقیقت ہے جس کا آج تک جواب نہیں دیا گیا، یہ خان صاحب کا بنایا ہوا نہیں تھا۔ پاناما ایک انٹرنیشنل ایشو تھا، لیکن یہ لوگ جیل سے نکل کر انہیں اپارٹمنٹ میں رہنے لگے جس کا پاناما میں الزام تھا۔ ہم سے بھی انتخابی نشان چھینا گیا تھا، قانون میں لکھا ہوا ہے کہ انٹراپارٹی الیکشن ہوں، میں نہیں چاہوں گا کہ کسی سیاسی جماعت سے انتخابی نشان چھینا جائے۔ پی ٹی آئی جب حکومت میں تھی تب بھی کہا گیا کہ انٹراپارٹی الیکشن کرائیں، عدالت نے 2 دن تحریک انصاف کو موقع دیا کہ ثبوت اور دستاویزات لے کر آئیں۔ تحریک انصاف کی لیگل ٹیم بغیر کسی تیاری کے عدالت میں گئے تھے، جس کا نقصان پارٹی کارکنوں کو اٹھانا پڑا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ وہی ضیا الحق کی مسلم لیگ بن کر میدان میں اترے ہیں، یہ تو ڈھٹائی سے کہتے ہیں پانامہ سازش تھی، آج تک منی ٹریل نہیں دی۔ ہم نے ن لیگ کی محبت میں نہیں پاکستان اور جمہوریت کے لیے فیصلے لیے، ہمیں ن لیگ کی ضرورتی نہیں پڑے گی۔  ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سے ذاتی دشمنی نہیں انھوں نے 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ ختم کرنا تھا، ہم سیاست میں لمبی اننگ کھیلیں گے، نظام میں بہتری لائیں گے۔ پی پی چیئرمین نے کہا کہ اگست میں آئی ایم ایف ڈیل بڑی مشکل سے حاصل کی، اسی وقت سیلاب اور پنجاب میں ضمنی الیکشن آ رہے تھے۔ اس وقت اتنے اہم موقع پر ٹیم میں اتنی بڑی تبدیلی بغیر مشاورت کیوں کی گئی، 3 ماہ کے لیے آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔  بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ان کی سوچ تھی کہ سیاسی فائدہ ہوگا اور یہ ضمنی الیکشن جیت جائیں، ان کے فیصلے سے معیشت کا نقصان ہوا اور یہ ضمنی الیکشن بھی ہارے۔ پھر آخر میں شہباز شریف وزیر خزانہ کو پاکستان میں چھوڑ کر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کیے، یہ ان کا سیاسی فیصلہ تھا جس کا نقصان اب ان کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ پی پی چیئرمین نے کہا کہ شہباز شریف سے ورکنگ ریلیشن شپ بہتر رہا، 18ویں ترمیم کے بعد بہت سی وزراتیں ختم ہوجانی چاہیے تھیں، یہ 17 وزارتیں 2015 میں ختم ہونی چاہیے تھیں آج تک نہیں ہوئیں۔ سیلاب کی وجہ سے سندھ میں 50 فیصد تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچا، نجکاری مشکل کام ہے، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ بہتر کام کرتا ہے۔

مزیدخبریں