مشورہ اور نصیحت

زندگی میں متعدد بار ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں انسان کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں اور آگے بڑھنے کے لیے کسی ایک راہ کا انتخاب کرنا لازم ہوتا ہے ۔پریشانی اور شش و پنج کے عالم میں عام طور مشورہ  یا نصیحت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے تاکہ کسی فیصلے پر پہنچنے میں آسانی ہو۔ گومگو کی سی یہ کیفیت زندگی کے بڑے فیصلوں سے لے کر روزمرہ مسائل تک میں ہو سکتی ہے  ۔مشورہ ایک باہمی عمل ہے جس میں کم از کم دو افراد کسی مدعے یا مسئلے پر بحث کرتے ہیں اور حاصل شدہ نتائج کی روشنی میں فیصلے پر پہنچنے میں آسانی ہوتی ہے ۔مشورہ طلب کرنے والا کسی ایسے فرد پر اعتماد رکھتے ہوئے اپنا مسئلہ بیان کرتا ہے جسے وہ زی عقل ،معاملہ فہم اور جہان دیدہ سمجھتا ہیاور جَواباََ دوسرا فرد اپنی فہم و دانش کے مطابق اس کا حل پیش کرتا ہے ۔ مشورہ انفرادی اور اجتماعی دونوں معاملات میں کیا جاتا ہے۔ دین میں مشاورت کو نہائت اہم مقام حاصل ہے ۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ باہم مشاورت ایک پسندیدہ اور رائج عمل رہا ہے اب بات کریں نصیحت کہ تو اس کی دو اقسام ہو سکتی ہیں بالمشافہ روبرو حاصل کی گئی نصیحت جس میں اہل علم و حکمت سے کوئی سوال کیا جاتا ہے اور وہ اپنے علم و تجربے کی بنیاد پر جائزہ لے کر نصیحت کرتیہیں ۔ دوسری قسم جس میں ناصح کا سامنے ہونا یا اس دنیا میں ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا  بلکہ کسی ایسی شخصیت  کے اقوال وشذرات کے زریعے متعلقہ موضوع کے بارے میں رہنمائی حاصل کی جاتی ہے جن کا مدبرانہ اور عاقلانہ مقام تسلیم شدہ ہو ۔تاریخ   نبیوں، ولیوں اور صاحب علم و حکمت افراد سے  پرْ ہے جِن کی حکمت و دانائی سے  بھر پور نصیحتیں آج تک  مشعل راہ ہیں اور اپنی  آفاقی نوعیت کی  وجہ سے ہر زمانے میں مفید اور کارآ مد ہیں۔ عقل و دانش اور فہم و فراست کی توقیر ہمیشہ رہی ہے لیکن زمانے کا چلن بھی اس کی قدر و قیمت طے کرنے میں اہم کردار ادا کرتاہے ۔  اسی لیے مشاورت اور پند و نصائح  کا بہ اعتبار زمانہ بھی ایک تناظر ہو سکتا ہے  ۔ایسے مشیران بھی گزرے جن کے بل بوتے پر  بادشاہتوں اور اور سلطنتوں کو دوام حاصل رہا اور  انہوں نے عروج و ترقی حاصل کی اور ایسے مشورے بھی دیے  گئے جن کو وقت نے باطل و ناقص ثابت کیا ۔مگر ایسے مشیران کا کام درست بتانے سے زیادہ غلط کو درست بنا کر پیش کرنا رہا ہے ۔یہ مثال پاکستان اور دیگردنیا کی کئی حکومتوں اور ان کے مشیران کے حوالے سے دی جاسکتی ہے ۔ مگر باہمی صلاح مشورے کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ نصیحت کی ایک قسم تاریخ سے ہدایت لینا ہے تاکہ ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل کو بہتر بنایا جاسکے ۔ناصح کے لغوی مطلب کا اطلاق ان تمام نصیحت کرنے والوں پر ہوتا ہے جو اپنی نیک صلاح سے بھلائی ، بڑائی اور عمدگی کی طرف راغب کرتے ہیں اس کے برعکس اردو ادب میں ناصحین کو کچھ زیادہ اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جاتا بقول غالب 
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا  
یعنی چارہ سازی،  غم گساری اور نصیحت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے اس کے علاوہ نصیحت  کے دیگر کئی آداب  ہیں جنہیں ملحوظ ِ خا طر رکھنا بے حد ضروری ہے۔ان سب میں شیریں گفتاری کو بھی واضح  برتری حاصل ہے 
ناصح تجھے آتے نہیں آداب نصیحت 
ہر لفظ ترا دل میں چبھن چھوڑ رہا ہے
 موجودہ زمانے کے لحاظ سے دیکھیں تو ناصحین جن میں سے کو چند کو موٹیویشنل سپیکر بھی کہا جا سکتا  ہے قلیل تعداد کے علاوہ سب ایک ہی دوا سے ہزاروں  کی شفایابی کا دعویٰ کرتے ہیں ۔انداز ِتکلم بھی عموما دل آویز  ہی ہوتا ہے اور آداب ِنصیحت کا خیال بھی رکھا جاتا ہے مگر نتیجے میں وقتی افاقہ تو شاید ہو مگر دور رَس نتائج نظر  نہیں آتے  ۔ اس تمام تحریک و ترغیب دینے والے حوصلہ افزا عمل پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ قیمت لے کر دیا جانے والا مشورہ یا نصیحت کیسے کارگر ثابت ہو سکتا ہے تو معالج سے مشورہ بھی قیمت  ادا  کر کے ہی کیا جاتا ہے اور شفا بھی ملتی ہے ۔ اس لیے مشورے میں فقط  رائے درکار نہیں ہوتی بلکہ ماہرانہ رائے کا حصول  مَطمَح نَظَر ہوتا ہے ۔ ایک ضرب المثل ہے ‘‘دوسروں کو نَصِیحت خود مِیاں فَضِی?حَت’’  وعظ و نصیحت اسی صورت میں موثر ہو تا ہے جب اس کا عملی نمونہ واعظ کی شخصیت میں نمایاں ہو ۔ ورنہ تو مشوروں کی ایک قسم مفت مشورے بھی ہے جن کی پیشکش میں ضرورت اور موقع محل کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔مشورے اور نصیحت حاصل کرنے کا پیمانہ الگ ہو سکتا ہے مگر شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو یہ دعویٰ کر سکے کہ اس نے کبھی مشورہ یا نصیحت حاصل نہیں کی ۔ 

ای پیپر دی نیشن