امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ کشمیر کے دیرینہ مسئلہ کو نئی صورتحال کے تناظر میں دیکھنا ہوگا، مسائل پاکستان اور بھارت ہی مل کر حل کرسکتے ہیں اس لئے مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات کے یقینی ایجنڈا میں شامل ہونا چاہئے۔ ممبئی میں مختلف تقریبات سے خطاب اور انٹرویوز میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ پاک بھارت مذاکرات کی حمائت کرتا ہے تاہم وہ مسئلہ کشمیر حل کرانے کیلئے ثالثی نہیں کرائیگا۔
دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں پاکستان کی خدمات اور توانائیوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اورمشرقی سرحد سے بے نیاز ہو کر پاک فوج کی توجہ قبائلی علاقوں پر مرکوز رکھنے کیلئے امریکہ، پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہے اور جہاں پاکستان پر دبائو ڈالا جارہا ہے کہ وہ ممبئی حملوں کے حوالے سے بھارتی مطالبات پورے کرے وہاں بھارت کو بھی ہٹ دھرمی ترک کرنے اور جامع مذاکرات شروع کرنے پر آمادہ کیا جا رہا ہے تاہم امریکہ اس حقیقت سے اب بھی انحراف برت رہا ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہیں ہوتا نہ تو پاکستان بھارتی عزائم کو نظرانداز کرسکتا ہے، نہ مشرقی سرحد سے توجہ ہٹا سکتا ہے اور نہ خطے میں پائیدار امن کا قیام ممکن ہے، اگرچہ امریکی دبائو پر پاکستان جامع مذاکرات کی بحالی کیلئے کوشاں ہے اور بھارت کو بعض یقین دہانیاں بھی کرائی گئی ہیں جبکہ بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ نے شرم الشیخ میں دوطرفہ مذاکرات کو دہشت گردی کے مسئلہ سے منسلک نہ کرنے اور مذاکرات بحال کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے لیکن شرم الشیخ کے مشترکہ اعلامیہ میں مسئلہ کشمیر کے ذکر سے گریز کرکے کشمیری اور پاکستانی عوام کی مایوسی میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ سردار جی ملاقات کے بعد جامع مذاکرات کی بحالی سے ہی مکر گئے ہیں کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ انتہا پسند اور تنگ نظر بھارتی رائے عامہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کو بھی پسند نہیں کریگی۔ لوک سبھا میں بھارتی وزیراعظم کا بیان بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
بھارت تو مذاکرات کو ہمیشہ وقت گزاری کیلئے استعمال کرتا ہے اور امریکہ بھی اپنے مقاصد کیلئے مذاکرات پر زور دیتا ہے لیکن یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ امریکی اور بھارتی عزائم سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باوجود اور بھارت کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے بھی موجودہ پاکستانی حکومت ایسے مذاکرات پر آمادہ نظر آتی ہے جس کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر اوپر سے نیچے تک کہیں بھی درج نہیں، حد یہ ہے کہ امریکی اور برطانوی یقین دہانیوں پر اعتماد کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کی طرح صدر آصف علی زرداری نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ پاکستان کو بھارت سے کوئی خطرہ نہیں جبکہ ماسکو میں من موہن سنگھ سے ملاقات کے دوران انہوں نے مسئلہ کشمیر کا ذکر کرنا بھی مناسب نہ سمجھا جو حل نہ ہوا تو پاکستان پانی کی قلت کی وجہ سے بنجرہوکر ویسے ہی خدانخواستہ تباہی کے کنارے پر پہنچ جائیگا۔ البتہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے شرم الشیخ میں بھی مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا اور کہا کہ یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو خطے میں پائیدار امن کا قیام محض خواب ہی رہیگا۔
خدا کا شکر ہے کہ اس حقیقت کا ادراک کسی نہ کسی حد تک امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کو بھی ہوا ہے جن کے شوہر نامدار بل کلنٹن اپنے دور صدارت میں مسئلہ کشمیر حل کرانے کیلئے ذاتی دلچسپی لینے کا وعدہ کرچکے ہیں اگرچہ یہ ایفاکبھی نہیں ہوا چنانچہ ہلیری کلنٹن نے مسئلہ کشمیر کو جامع مذاکرات کے ایجنڈا کا لازمی حصہ بنانے پر زوردیا ہے اور اپنے ملک کی دلچسپی کا ذکر بھی کیا ہے تاہم ثالثی کرانے سے انہوں نے انکار کیا ہے جو پاکستان اور کشمیری عوام کا مطالبہ نہیں البتہ وہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ دوطرفہ مذاکرات صرف اور صرف مسئلہ کشمیر کے پائیدار اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے حل ہوں اور عالمی برادری ان کی نگرانی کرے ورنہ اگر مسئلہ کشمیر جامع مذاکرات کے ایجنڈے کا حصہ بن بھی گیا تو بھارت انہیں اتنی طوالت دیگا کہ یہ مذاق بن کر رہ جائیں گے اور جب عالمی دبائو کم ہوا تو وہ کسی نہ کسی بہانے تمام طے شدہ امور سے مکر جائیگا۔
ہلیری کلنٹن کے اس بیان کے بعد حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ امریکہ پر مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کیلئے دبائو ڈالے اور فی الحال اسی ایک موضوع پر مذاکرات کاڈول ڈالے کیونکہ اگر یہ مسئلہ حل ہوگیا تو دیگر مسائل کے حل میں قطعی دیر نہیں لگے گی کیونکہ یہ مسائل کشمیر سے جڑے ہوئے ہیں مذاکرات کی میز پر جانے سے پہلے حکومت پاکستان بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے وہ تمام ثبوت جو وزیراعظم گیلانی نے شرم الشیخ میں ڈاکٹر من موہن سنگھ کے سامنے رکھے ہیں عالمی برادری کے سامنے پیش کرے اور مطالبہ کیا جائے کہ بھارت ’’را‘‘ اور ’’رام‘‘ کا پاکستان دشمن نیٹ ورک ختم کرکے اپنی نیک نیتی کا ثبوت دے۔
ہلیری کلنٹن ممبئی کے تین روزہ دورے کے بعد نئی دہلی پہنچی ہیں انہیں جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم کا علم ہونا چاہئے اور اتوار کے روز کشمیری عوام نے یوم الحاق پاکستان منا کر اپنے جس عزم کا اظہار کیا اس کی اطلاع بھی مل گئی ہوگی لہٰذا انہیں ایک عالمی قوت کے اہم عہدیدار کی حیثیت سے ڈاکٹر من موہن اور دیگر بھارتی عہدیداروں سے ملاقات میں نہ صرف یہ مسئلہ شد و مد سے اٹھانا چاہئے بلکہ جموں و کشمیر سے بھارتی فوج کا فی الفور انخلا، تمام رہنمائوں اور کارکنوں کی رہائی کے علاوہ سیاسی و مذہبی قائدین کے خلاف مقدمات کی واپسی کو یقینی بنانا چاہئے کیونکہ سازگار ماحول اور کشمیری عوام کی خوشدلانہ شرکت کے بغیر مسئلہ کشمیر پر مذاکرات نہ تو کامیابی سے دوچار ہوسکتے ہیں اور نہ پاکستانی و کشمیری عوام کو بھارت کی نیک نیتی اور امن پسندی کا ثبوت مل سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے طریقہ کاروضع کرنے کیلئے مذاکرات کے سوا کوئی دوسرا آپشن قابل قبول نہیں اور حکومت پاکستان اس پر زور دے ورنہ وقت کا ضیاع ہمارے قومی مفادات کیلئے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔
دہشت گردی کے خاتمہ کی مشترکہ کوششوں پر اتفاق
وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے صدر آصف علی زرداری کے خصوصی ایلچی کی حیثیت میں افغانستان کا دورہ کیا اور وہاں افغان صدر حامد کرزئی‘ اپنے ہم منصب حنیف اتمار اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں بعد ازاں افغان وزیر داخلہ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ پاکستان اور افغانستان نے دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائی پر اتفاق کیا ہے جس کے لئے افغان صدر نے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔ رحمان ملک کے بقول افغان قیادت نے پاک افغان سرحد کے انٹری پوائنٹس پر بایو میٹرک سسٹم کی تنصیب پر اتفاق کیا ہے۔ یہ سسٹم اگست کے پہلے ہفتے میں لگا دیا جائے گا۔
یہ طرفہ تماشہ ہے کہ جو افغانستان ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت کے ساتھ مل کر ہمیں غیر مستحکم کرنے کے لئے دہشت گردوں کی نرسریاں تیار کر رہا ہے اور اس مقصد کے لئے افغانستان میں بھارت کے 14 قونصل خانے قائم کر کے ان کے ذریعے دہشت گردوں کو تربیت دے کر پاکستان بھجوایا جاتا ہے اس افغانستان کے ساتھ ہمارے بھولے بادشاہ دہشت گردوں کے خاتمہ کی مشترکہ حکمت عملی پر متفق ہو رہے ہیں‘ جو ملک خود دہشت گردی کے ذریعے ہمارے ملک کی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو اور اس مقصد کے لئے ہمارے مکار دشمن کے ہاتھ بھی مضبوط کر رہا ہو‘ کیا اس سے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمہ کی مشترکہ کوششوں میں ہمارے ساتھ مخلص ہو گا۔ اگر ہمارے حکمران مبینہ دہشت گردی کے خاتمہ کے کسی مشترکہ منصوبے پر اس کے ساتھ شریک ہو گئے تو وہ ان تمام دہشت گردوں کو صاف بچا لے جائے گا جو خود اس نے تربیت دے کر ہمارے ملک میں بھجوائے ہوں گے یا جنہیں بھارت نے اپنے قونصل خانوں کے ذریعے افغانستان میں تربیت دلوا کر ہمارے ملک میں دہشت گردی کے لئے استعمال کیا ہو گا۔ افغانستان کے ساتھ دہشت گردی کے کسی مشترکہ منصوبے میں شریک ہونا تو درحقیقت اسے دہشت گردوں کا ’کُھرا‘‘ غائب کرنے کا موقع دینے کے مترادف ہے‘ جبکہ ان مشترکہ کوششوں کی آڑ میں وہ اپنے تحفظ میں مزید دہشت گرد ہماری سرزمین میں داخل کر سکتا ہے اس لئے افغانستان کے کسی ٹریپ میں نہ آیا جائے‘ کٹھ پتلی کرزئی حکومت ہمارے ساتھ کبھی مخلص نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ امریکی چھتری کے نیچے بھارتی پٹھو کا کردار ادا کر رہی ہے جن کا مشترکہ مقصد اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت پاکستان کو غیر مستحکم کر کے اس کی سالمیت کو پارہ پارہ کرنا ہے جبکہ امریکہ اور بھارت اپنی آزادی کے لئے جہاد میں مصروف کشمیری عوام کی جدوجہدِ آزادیٔ کو بھی دہشت گردی کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔
امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی گزشتہ روز ممبئی میں دہشت گردی کو خطے کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دے کر پاکستان کو بھارت سے مل کر اس کا مداوا کرنے کی تلقین کی ہے۔ اس صورتِ حال میں افغانستان یا بھارت کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمہ کی مشترکہ کوششوں پر متفق ہونا کشمیری مجاہدین کو دہشت گرد سمجھنے کے ان کے مؤقف کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ بھارت و افغانستان کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمہ کا کوئی مشترکہ منصوبہ نہ بنایا جائے اور امریکہ پر زور دیا جائے کہ وہ بھارت اور افغانستان کو ہمارے ملک میں دہشت گرد بھجوانے سے روکے‘ ہمیں اس خطہ میں اس کے مفادات کی جنگ میں شریک ہونے کے باعث ہی تو بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے۔
قائد اعظم کا پورٹریٹ غائب کرنے کی بے احتیاطی!
اخباری رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی غیر وابستہ ممالک کی کانفرنس میں شرکت کے بعد شرم الشیخ سے واپسی پر وزیر اعظم ہاؤس میں پریس کانفرنس کرنے جا رہے تھے تو اس وقت وزیر اعظم کی نشست کے پیچھے صرف سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے پورٹریٹ آویزاں تھے جبکہ قائد اعظم کی تصویر وہاں سے غائب تھی۔ ’’وقت نیوز‘‘ نے جب اس کی ویڈیو بنانا شروع کی تو وزیر اعظم ہاؤس کے عملے کو غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے وہاں دوبارہ قائد اعظم کی تصویر آویزاں کرنا شروع کر دی۔ وزیر اعظم ہاؤس کے عملہ کے اس عمل کو وہاں موجود درجنوں کیمروں نے ریکارڈ کیا کہ بوکھلاہٹ میں انہیں قائد اعظم کی تصویر آویزاں کرنے کے لئے تین سے زائد کیلیں بار بار لگانا پڑیں۔ پھر بھی تصویر کا توازن برقرار نہ رہ سکا۔
اس سے قبل ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری کی منعقدہ ایک تقریب اور پھر وزیر اعظم ہاؤس میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں منعقدہ تقریب کے موقع پر بھی قائد اعظم کے پورٹریٹ غائب کر کے مرحومین ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے پورٹریٹ آویزاں کئے گئے تھے جس کا ملک کے محب وطن حلقوں نے سخت نوٹس لیا جبکہ اب وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم کی پریس کانفرنس کے موقع پر یہی غلطی پھر دہرانے کی کوشش کی گئی۔
ممکن ہے وزیر اعظم کو اس تمام تر صورتحال کا سرے سے علم ہی نہ ہو اور حکومت کو بدنام کرنے کی کسی سازش کے تحت بیورو کریسی میں موجود کچھ لوگ خود ہی ایسی کارروائیاں کر رہے ہوں تاہم یہ ایسی بے احتیاطی ہے جو قوم کسی صورت برداشت نہیں کر سکتی۔
اس لئے وزیر اعظم کو خود اس معاملہ کا کھوج لگانا چاہئے‘ کیونکہ کارستانی کسی اور کی ہوتی ہے مگر ملبہ حکومت پر پڑ جاتا ہے جس سے حکومت کو پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو لوگ وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم کی کسی تقریب یا پریس کانفرنس کے موقع پر بانیٔ پاکستان قائد اعظم کا پورٹریٹ غائب کر کے اس کی جگہ بھٹو مرحوم اور بے نظیر بھٹو کے پورٹریٹ آویزاں کرتے ہیں ۔ ان کا مقصد منتخب جمہوری حکمرانوں کے بارے میں قوم کے ذہنوں میں غلط فہمیاں پیدا کرنا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کو وزیر اعظم ہاؤس میں موجود ان عناصر کا کھوج لگوا کر ان کی گو شمالی کرنی چاہئے بصورت دیگر یہ کل کو ان کے لئے کسی بڑی پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں پاکستان کی خدمات اور توانائیوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اورمشرقی سرحد سے بے نیاز ہو کر پاک فوج کی توجہ قبائلی علاقوں پر مرکوز رکھنے کیلئے امریکہ، پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہے اور جہاں پاکستان پر دبائو ڈالا جارہا ہے کہ وہ ممبئی حملوں کے حوالے سے بھارتی مطالبات پورے کرے وہاں بھارت کو بھی ہٹ دھرمی ترک کرنے اور جامع مذاکرات شروع کرنے پر آمادہ کیا جا رہا ہے تاہم امریکہ اس حقیقت سے اب بھی انحراف برت رہا ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہیں ہوتا نہ تو پاکستان بھارتی عزائم کو نظرانداز کرسکتا ہے، نہ مشرقی سرحد سے توجہ ہٹا سکتا ہے اور نہ خطے میں پائیدار امن کا قیام ممکن ہے، اگرچہ امریکی دبائو پر پاکستان جامع مذاکرات کی بحالی کیلئے کوشاں ہے اور بھارت کو بعض یقین دہانیاں بھی کرائی گئی ہیں جبکہ بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ نے شرم الشیخ میں دوطرفہ مذاکرات کو دہشت گردی کے مسئلہ سے منسلک نہ کرنے اور مذاکرات بحال کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے لیکن شرم الشیخ کے مشترکہ اعلامیہ میں مسئلہ کشمیر کے ذکر سے گریز کرکے کشمیری اور پاکستانی عوام کی مایوسی میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ سردار جی ملاقات کے بعد جامع مذاکرات کی بحالی سے ہی مکر گئے ہیں کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ انتہا پسند اور تنگ نظر بھارتی رائے عامہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کو بھی پسند نہیں کریگی۔ لوک سبھا میں بھارتی وزیراعظم کا بیان بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
بھارت تو مذاکرات کو ہمیشہ وقت گزاری کیلئے استعمال کرتا ہے اور امریکہ بھی اپنے مقاصد کیلئے مذاکرات پر زور دیتا ہے لیکن یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ امریکی اور بھارتی عزائم سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باوجود اور بھارت کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے بھی موجودہ پاکستانی حکومت ایسے مذاکرات پر آمادہ نظر آتی ہے جس کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر اوپر سے نیچے تک کہیں بھی درج نہیں، حد یہ ہے کہ امریکی اور برطانوی یقین دہانیوں پر اعتماد کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کی طرح صدر آصف علی زرداری نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ پاکستان کو بھارت سے کوئی خطرہ نہیں جبکہ ماسکو میں من موہن سنگھ سے ملاقات کے دوران انہوں نے مسئلہ کشمیر کا ذکر کرنا بھی مناسب نہ سمجھا جو حل نہ ہوا تو پاکستان پانی کی قلت کی وجہ سے بنجرہوکر ویسے ہی خدانخواستہ تباہی کے کنارے پر پہنچ جائیگا۔ البتہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے شرم الشیخ میں بھی مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا اور کہا کہ یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو خطے میں پائیدار امن کا قیام محض خواب ہی رہیگا۔
خدا کا شکر ہے کہ اس حقیقت کا ادراک کسی نہ کسی حد تک امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کو بھی ہوا ہے جن کے شوہر نامدار بل کلنٹن اپنے دور صدارت میں مسئلہ کشمیر حل کرانے کیلئے ذاتی دلچسپی لینے کا وعدہ کرچکے ہیں اگرچہ یہ ایفاکبھی نہیں ہوا چنانچہ ہلیری کلنٹن نے مسئلہ کشمیر کو جامع مذاکرات کے ایجنڈا کا لازمی حصہ بنانے پر زوردیا ہے اور اپنے ملک کی دلچسپی کا ذکر بھی کیا ہے تاہم ثالثی کرانے سے انہوں نے انکار کیا ہے جو پاکستان اور کشمیری عوام کا مطالبہ نہیں البتہ وہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ دوطرفہ مذاکرات صرف اور صرف مسئلہ کشمیر کے پائیدار اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے حل ہوں اور عالمی برادری ان کی نگرانی کرے ورنہ اگر مسئلہ کشمیر جامع مذاکرات کے ایجنڈے کا حصہ بن بھی گیا تو بھارت انہیں اتنی طوالت دیگا کہ یہ مذاق بن کر رہ جائیں گے اور جب عالمی دبائو کم ہوا تو وہ کسی نہ کسی بہانے تمام طے شدہ امور سے مکر جائیگا۔
ہلیری کلنٹن کے اس بیان کے بعد حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ امریکہ پر مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کیلئے دبائو ڈالے اور فی الحال اسی ایک موضوع پر مذاکرات کاڈول ڈالے کیونکہ اگر یہ مسئلہ حل ہوگیا تو دیگر مسائل کے حل میں قطعی دیر نہیں لگے گی کیونکہ یہ مسائل کشمیر سے جڑے ہوئے ہیں مذاکرات کی میز پر جانے سے پہلے حکومت پاکستان بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے وہ تمام ثبوت جو وزیراعظم گیلانی نے شرم الشیخ میں ڈاکٹر من موہن سنگھ کے سامنے رکھے ہیں عالمی برادری کے سامنے پیش کرے اور مطالبہ کیا جائے کہ بھارت ’’را‘‘ اور ’’رام‘‘ کا پاکستان دشمن نیٹ ورک ختم کرکے اپنی نیک نیتی کا ثبوت دے۔
ہلیری کلنٹن ممبئی کے تین روزہ دورے کے بعد نئی دہلی پہنچی ہیں انہیں جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم کا علم ہونا چاہئے اور اتوار کے روز کشمیری عوام نے یوم الحاق پاکستان منا کر اپنے جس عزم کا اظہار کیا اس کی اطلاع بھی مل گئی ہوگی لہٰذا انہیں ایک عالمی قوت کے اہم عہدیدار کی حیثیت سے ڈاکٹر من موہن اور دیگر بھارتی عہدیداروں سے ملاقات میں نہ صرف یہ مسئلہ شد و مد سے اٹھانا چاہئے بلکہ جموں و کشمیر سے بھارتی فوج کا فی الفور انخلا، تمام رہنمائوں اور کارکنوں کی رہائی کے علاوہ سیاسی و مذہبی قائدین کے خلاف مقدمات کی واپسی کو یقینی بنانا چاہئے کیونکہ سازگار ماحول اور کشمیری عوام کی خوشدلانہ شرکت کے بغیر مسئلہ کشمیر پر مذاکرات نہ تو کامیابی سے دوچار ہوسکتے ہیں اور نہ پاکستانی و کشمیری عوام کو بھارت کی نیک نیتی اور امن پسندی کا ثبوت مل سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے طریقہ کاروضع کرنے کیلئے مذاکرات کے سوا کوئی دوسرا آپشن قابل قبول نہیں اور حکومت پاکستان اس پر زور دے ورنہ وقت کا ضیاع ہمارے قومی مفادات کیلئے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔
دہشت گردی کے خاتمہ کی مشترکہ کوششوں پر اتفاق
وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے صدر آصف علی زرداری کے خصوصی ایلچی کی حیثیت میں افغانستان کا دورہ کیا اور وہاں افغان صدر حامد کرزئی‘ اپنے ہم منصب حنیف اتمار اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں بعد ازاں افغان وزیر داخلہ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ پاکستان اور افغانستان نے دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائی پر اتفاق کیا ہے جس کے لئے افغان صدر نے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔ رحمان ملک کے بقول افغان قیادت نے پاک افغان سرحد کے انٹری پوائنٹس پر بایو میٹرک سسٹم کی تنصیب پر اتفاق کیا ہے۔ یہ سسٹم اگست کے پہلے ہفتے میں لگا دیا جائے گا۔
یہ طرفہ تماشہ ہے کہ جو افغانستان ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت کے ساتھ مل کر ہمیں غیر مستحکم کرنے کے لئے دہشت گردوں کی نرسریاں تیار کر رہا ہے اور اس مقصد کے لئے افغانستان میں بھارت کے 14 قونصل خانے قائم کر کے ان کے ذریعے دہشت گردوں کو تربیت دے کر پاکستان بھجوایا جاتا ہے اس افغانستان کے ساتھ ہمارے بھولے بادشاہ دہشت گردوں کے خاتمہ کی مشترکہ حکمت عملی پر متفق ہو رہے ہیں‘ جو ملک خود دہشت گردی کے ذریعے ہمارے ملک کی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو اور اس مقصد کے لئے ہمارے مکار دشمن کے ہاتھ بھی مضبوط کر رہا ہو‘ کیا اس سے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمہ کی مشترکہ کوششوں میں ہمارے ساتھ مخلص ہو گا۔ اگر ہمارے حکمران مبینہ دہشت گردی کے خاتمہ کے کسی مشترکہ منصوبے پر اس کے ساتھ شریک ہو گئے تو وہ ان تمام دہشت گردوں کو صاف بچا لے جائے گا جو خود اس نے تربیت دے کر ہمارے ملک میں بھجوائے ہوں گے یا جنہیں بھارت نے اپنے قونصل خانوں کے ذریعے افغانستان میں تربیت دلوا کر ہمارے ملک میں دہشت گردی کے لئے استعمال کیا ہو گا۔ افغانستان کے ساتھ دہشت گردی کے کسی مشترکہ منصوبے میں شریک ہونا تو درحقیقت اسے دہشت گردوں کا ’کُھرا‘‘ غائب کرنے کا موقع دینے کے مترادف ہے‘ جبکہ ان مشترکہ کوششوں کی آڑ میں وہ اپنے تحفظ میں مزید دہشت گرد ہماری سرزمین میں داخل کر سکتا ہے اس لئے افغانستان کے کسی ٹریپ میں نہ آیا جائے‘ کٹھ پتلی کرزئی حکومت ہمارے ساتھ کبھی مخلص نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ امریکی چھتری کے نیچے بھارتی پٹھو کا کردار ادا کر رہی ہے جن کا مشترکہ مقصد اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت پاکستان کو غیر مستحکم کر کے اس کی سالمیت کو پارہ پارہ کرنا ہے جبکہ امریکہ اور بھارت اپنی آزادی کے لئے جہاد میں مصروف کشمیری عوام کی جدوجہدِ آزادیٔ کو بھی دہشت گردی کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔
امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی گزشتہ روز ممبئی میں دہشت گردی کو خطے کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دے کر پاکستان کو بھارت سے مل کر اس کا مداوا کرنے کی تلقین کی ہے۔ اس صورتِ حال میں افغانستان یا بھارت کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمہ کی مشترکہ کوششوں پر متفق ہونا کشمیری مجاہدین کو دہشت گرد سمجھنے کے ان کے مؤقف کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ بھارت و افغانستان کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمہ کا کوئی مشترکہ منصوبہ نہ بنایا جائے اور امریکہ پر زور دیا جائے کہ وہ بھارت اور افغانستان کو ہمارے ملک میں دہشت گرد بھجوانے سے روکے‘ ہمیں اس خطہ میں اس کے مفادات کی جنگ میں شریک ہونے کے باعث ہی تو بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے۔
قائد اعظم کا پورٹریٹ غائب کرنے کی بے احتیاطی!
اخباری رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی غیر وابستہ ممالک کی کانفرنس میں شرکت کے بعد شرم الشیخ سے واپسی پر وزیر اعظم ہاؤس میں پریس کانفرنس کرنے جا رہے تھے تو اس وقت وزیر اعظم کی نشست کے پیچھے صرف سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے پورٹریٹ آویزاں تھے جبکہ قائد اعظم کی تصویر وہاں سے غائب تھی۔ ’’وقت نیوز‘‘ نے جب اس کی ویڈیو بنانا شروع کی تو وزیر اعظم ہاؤس کے عملے کو غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے وہاں دوبارہ قائد اعظم کی تصویر آویزاں کرنا شروع کر دی۔ وزیر اعظم ہاؤس کے عملہ کے اس عمل کو وہاں موجود درجنوں کیمروں نے ریکارڈ کیا کہ بوکھلاہٹ میں انہیں قائد اعظم کی تصویر آویزاں کرنے کے لئے تین سے زائد کیلیں بار بار لگانا پڑیں۔ پھر بھی تصویر کا توازن برقرار نہ رہ سکا۔
اس سے قبل ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری کی منعقدہ ایک تقریب اور پھر وزیر اعظم ہاؤس میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں منعقدہ تقریب کے موقع پر بھی قائد اعظم کے پورٹریٹ غائب کر کے مرحومین ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے پورٹریٹ آویزاں کئے گئے تھے جس کا ملک کے محب وطن حلقوں نے سخت نوٹس لیا جبکہ اب وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم کی پریس کانفرنس کے موقع پر یہی غلطی پھر دہرانے کی کوشش کی گئی۔
ممکن ہے وزیر اعظم کو اس تمام تر صورتحال کا سرے سے علم ہی نہ ہو اور حکومت کو بدنام کرنے کی کسی سازش کے تحت بیورو کریسی میں موجود کچھ لوگ خود ہی ایسی کارروائیاں کر رہے ہوں تاہم یہ ایسی بے احتیاطی ہے جو قوم کسی صورت برداشت نہیں کر سکتی۔
اس لئے وزیر اعظم کو خود اس معاملہ کا کھوج لگانا چاہئے‘ کیونکہ کارستانی کسی اور کی ہوتی ہے مگر ملبہ حکومت پر پڑ جاتا ہے جس سے حکومت کو پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو لوگ وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم کی کسی تقریب یا پریس کانفرنس کے موقع پر بانیٔ پاکستان قائد اعظم کا پورٹریٹ غائب کر کے اس کی جگہ بھٹو مرحوم اور بے نظیر بھٹو کے پورٹریٹ آویزاں کرتے ہیں ۔ ان کا مقصد منتخب جمہوری حکمرانوں کے بارے میں قوم کے ذہنوں میں غلط فہمیاں پیدا کرنا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کو وزیر اعظم ہاؤس میں موجود ان عناصر کا کھوج لگوا کر ان کی گو شمالی کرنی چاہئے بصورت دیگر یہ کل کو ان کے لئے کسی بڑی پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔