مشرف پر مقدمہ ضرور چلائیں

اس امر پر سب لوگ متفق ہیں کہ مارشل لاء کے چار عدد طویل ادوار میں وطن عزیز کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے فوجی حکومت کے ہر دور میں ڈکٹیٹر نے ملک کے بنیادی قانون یعنی آئین‘ اور لہذا تمام قوانین ردی کی ٹوکری میں پھینک دئیے۔ اس نے زمانہ قدیم کے مطلق العنان حکمران کی طرح حکومت کی۔ صرف آمر کا حکم ہی قانون ٹھہرا سویلین حکومتوں کے دوران جس قدر بھی آئینی اور قانونی پیش رفت ہو پائی تھی وہ سب صفر ہوئی۔ ہر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے ہر ادارے کے سربراہ کے طور پر ایسے جرنیل تعینات کئے جنہیں اس کام کا ایک دن کا بھی تجربہ نہ تھا‘ نتیجتاً انتظامیہ کا ستیاناس ہوا۔ ایوب خان نے سینکڑوں اعلیٰ ترین سویلین افسروں کو ریڈیو پر ایک اعلان کے ذریعہ برطرف کیا‘ جس سے انتظامیہ کی چولیں ہل گئیں‘ اور اطاعت گزاری ہی ملازمت کرنے کا واحد طریقہ قرار پائی۔ ہر ایک نے مارشل لا صرف اس وقت اٹھایا جب اس کے تمام غیر قانونی اقدامات کو درست شمار کیا گیا۔ ریاست نے اس کی انتہائی غیر قانونی اقدام پر بھی گرفت نہ کی اور نہ کوئی مقدمہ چلایا اس کے برعکس اس کی وفات کے بعد اسے پورے اعزاز سے دفن کیا گیا۔ انصاف کو سر کے بل کھڑا کر دیا گیا۔ یعنی چھوٹے موٹے مجرم کو جیل بھیجا جاتا‘ لیکن جس نے ملک کا سب بے بڑا جرم کیا یعنی قانون کو ہی ختم کر دیا وہ آزاد پھرتا اور عزت و تکریم کا مستحق قرار پاتا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر آنے والے آرمی چیف کے دل میں اقتدار پر قبضہ کرنے کی خواہش پیدا ہوئی اور ایوب خان کے بعد یکے بعد دیگرے یحیٰ ضیاء اور مشرف نے اقتدار پر ناجائز قبضہ کر لیا۔ قوم بار بار کے مارشل لائوں کے بھنور میں پھنس گئی اور اب تک پھنسی ہوئی ہے دنیا ترقی کی بلندیاں طے کر کے آسمان کو چھونے لگی ہیں لیکن ہم پیچھے کی طرف چل کر قرون وسطیٰ میں پہنچ گئے۔ ذرا غور فرمائیں کہ یہ جو زمانہ قدیم سے تعلق رکھنے والے شدت پسند ہیں فوجی حکمرانوں اور ان کی ایجنسیوں ہی کے پروردہ ہیں۔ اس کے علاوہ مارشل لائوں کی پنتیس سال کی لاقانونیت ہی اس موجودہ طوائف المکوکی کی سب سے بڑی ذمہ دار ہے۔ جو کہ وطن عزیز کا بخیہ بخیہ ادھیڑ رہی ہے۔
کیا ہم ہمیشہ کے لئے اسی طرح فوج کی حکمرانی تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے؟ ہمارا شمار آج بھی صومالیہ جیسی ناکام ریاستوں میں ہونے لگا ہے۔ تو ہم نے اس سے زیادہ کتنی پستی میں گرنا ہے؟ یا کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم مارشل لائوں کے چکر سے نکل آئیں یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہمارے معزول شدہ ڈکٹیٹر کو ریاست کے خلاف کردہ جرائم کے سلسلے میں عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے۔
اگر ایوب خان کو آرٹیکل 6 کے مطابق آئین سے بغاوت پر کڑی سزا مل گئی ہوتی تو اس کے بعد کوئی مائی کا لعل دوبارہ آئین کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی جرات نہ کرتا ااور یحییٰ ،ضیا اور مشرف نے وطن عزیز کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا‘ ہم اس سے بچ جاتے۔
مشرف کے جرائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کا آئین کو توڑنے کا عمل ساری دنیا نے دیکھا اس کے علاوہ جب مشرف نے آرمی چیف کی حیثیت میں 3 نومبر 2007ء کو دوبارہ آئین کو معطل کیا تو علی الاعلان کیا اور باقاعدہ ٹیلی وژن پر آ کر اس کی تفصیلات بیان کیں۔ اس کے ساتھ ہی جو انہوں نے ملک کے 60 عدد اعلیٰ ترین جج صاحبان اور ان کے خاندانوں کو کئی ماہ نظر بند رکھا‘ وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہ تھا۔
بلکہ یہاں تک کہ آپ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے وکیل کو بھی ناکردہ گناہ کی پاداش میں ایک طویل عرصہ تک نظر بند رکھا۔ ایسا تو شائد راجہ رنجیت سنگھ بھی نہ کر پاتے۔ اس کے علاوہ آپ نے ان بچیوں کو جنہوں نے غیر قانونی طریقہ سے اسلام آباد کی چلڈرن لائبریری پر قبضہ کر لیا تھا۔ پہلے کئی مہینوں تک ان کے خلاف کوئی مؤثر اقدام نہ کیا لیکن اس کے بعد ان کو جلا کر خاک کر دیا‘ جس کے ردعمل کے طور پر سینکڑوں خودکش بمبار پیدا ہوئے۔
مشرف کی اپنی کتاب میں اقرار کردہ کوائف کے مطابق سینکڑوں انسانوں کو مقدمہ چلائے بغیر امریکہ کے حوالے کیا اور اس کے عوض کروڑوں ڈالر کمائے۔
طالبان کی علیٰ الاعلان حکومت مشرف دور میں شروع ہوئی لیکن آپ نے اس سلسلے میں کچھ نہ کیا۔ جولائی 2000ء میں یہ بغاوت ایک گاؤں تک محدود تھی اور اس کی حیثیت محض ایک اعلان کی تھی۔ اس وقت اس بغاوت کو بآسانی فرو کیا جا سکتا تھا۔ دراصل مشرف نے خود آئین کی ایسی کی تیسی کی تھی‘ ان کی بلا سے کوئی اور بھی ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایسا کرتا پھرے۔ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ مشرف کے ماتحت جس فوج نے اس سرکشی کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا‘ اب اسے اپنی اور وطنِ عزیز کی بقا کی جنگ انتہائی نامساعد حالات میں لڑنا پڑ رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم مشرف کے بوئے ہوئے کانٹے چُن رہے ہیں۔
اقتدار میں رہنے کی غرض سے جنرل مشرف نے قوم کی پیٹھ کے پیچھے بینظیر بھٹو سے معاملہ کر کے این آر او آرڈیننس نافذ کیا جس کی رُو سے 1988ء سے لے کر تمام کے تمام مگرمچھوں کو معاف کر دیا‘ تاکہ وہ دوبارہ عوام کو نوالہ بناتے رہیں‘ اس سے زیادہ غیر اصولی بات کوئی ہو نہیں سکتی تھی۔ لیکن شومیٔ قسمت ملاحظہ فرمائیے کہ نہ مشرف کو پانچ سال کی صدارت ملی اور نہ ہی محترمہ کو وزارتِ عظمیٰ ‘ مزا کوئی اور لُوٹ گیا۔
کیا کیا بیان کیا جائے؟ فہرست بہت طویل ہے۔ لیکن ظاہر ہے جب مقدمہ شروع ہو گا تو سب چیزیں سامنے آ جائیں گی۔ اکیلی آئین کی معطلی کی سزا ہی موت ہے۔ بہرحال مقدمہ ضرور چلنا چاہیے اور جلد از جلد دائر ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو عوام یہ نتیجہ اخد کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ وطنِ عزیز کی سب سے بڑی ہستی این آر او کے احسانات کے عوض آپ کو بچانا چاہتی ہے۔ اس صورت میں مقدمہ چلانے کے لئے بھرپور تحریک شروع ہونی چاہیے اور مقصد کے حصول تک جاری رہنی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی سٹے باز قوم کی قسمت سے کھیلنے کی جرأت نہ کرے‘ نہ قوم کو ایک ہزار سال پیچھے لے جائے اور نہ ہی اپنے ذاتی اقتدارِ اعلیٰ کی خاطر ساری فوج کو بدنام کرے۔

ای پیپر دی نیشن