کیا ہم ہمیشہ کے لئے اسی طرح فوج کی حکمرانی تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے؟ ہمارا شمار آج بھی صومالیہ جیسی ناکام ریاستوں میں ہونے لگا ہے۔ تو ہم نے اس سے زیادہ کتنی پستی میں گرنا ہے؟ یا کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم مارشل لائوں کے چکر سے نکل آئیں یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہمارے معزول شدہ ڈکٹیٹر کو ریاست کے خلاف کردہ جرائم کے سلسلے میں عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے۔
اگر ایوب خان کو آرٹیکل 6 کے مطابق آئین سے بغاوت پر کڑی سزا مل گئی ہوتی تو اس کے بعد کوئی مائی کا لعل دوبارہ آئین کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی جرات نہ کرتا ااور یحییٰ ،ضیا اور مشرف نے وطن عزیز کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا‘ ہم اس سے بچ جاتے۔
مشرف کے جرائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کا آئین کو توڑنے کا عمل ساری دنیا نے دیکھا اس کے علاوہ جب مشرف نے آرمی چیف کی حیثیت میں 3 نومبر 2007ء کو دوبارہ آئین کو معطل کیا تو علی الاعلان کیا اور باقاعدہ ٹیلی وژن پر آ کر اس کی تفصیلات بیان کیں۔ اس کے ساتھ ہی جو انہوں نے ملک کے 60 عدد اعلیٰ ترین جج صاحبان اور ان کے خاندانوں کو کئی ماہ نظر بند رکھا‘ وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہ تھا۔
بلکہ یہاں تک کہ آپ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے وکیل کو بھی ناکردہ گناہ کی پاداش میں ایک طویل عرصہ تک نظر بند رکھا۔ ایسا تو شائد راجہ رنجیت سنگھ بھی نہ کر پاتے۔ اس کے علاوہ آپ نے ان بچیوں کو جنہوں نے غیر قانونی طریقہ سے اسلام آباد کی چلڈرن لائبریری پر قبضہ کر لیا تھا۔ پہلے کئی مہینوں تک ان کے خلاف کوئی مؤثر اقدام نہ کیا لیکن اس کے بعد ان کو جلا کر خاک کر دیا‘ جس کے ردعمل کے طور پر سینکڑوں خودکش بمبار پیدا ہوئے۔
مشرف کی اپنی کتاب میں اقرار کردہ کوائف کے مطابق سینکڑوں انسانوں کو مقدمہ چلائے بغیر امریکہ کے حوالے کیا اور اس کے عوض کروڑوں ڈالر کمائے۔
طالبان کی علیٰ الاعلان حکومت مشرف دور میں شروع ہوئی لیکن آپ نے اس سلسلے میں کچھ نہ کیا۔ جولائی 2000ء میں یہ بغاوت ایک گاؤں تک محدود تھی اور اس کی حیثیت محض ایک اعلان کی تھی۔ اس وقت اس بغاوت کو بآسانی فرو کیا جا سکتا تھا۔ دراصل مشرف نے خود آئین کی ایسی کی تیسی کی تھی‘ ان کی بلا سے کوئی اور بھی ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایسا کرتا پھرے۔ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ مشرف کے ماتحت جس فوج نے اس سرکشی کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا‘ اب اسے اپنی اور وطنِ عزیز کی بقا کی جنگ انتہائی نامساعد حالات میں لڑنا پڑ رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم مشرف کے بوئے ہوئے کانٹے چُن رہے ہیں۔
اقتدار میں رہنے کی غرض سے جنرل مشرف نے قوم کی پیٹھ کے پیچھے بینظیر بھٹو سے معاملہ کر کے این آر او آرڈیننس نافذ کیا جس کی رُو سے 1988ء سے لے کر تمام کے تمام مگرمچھوں کو معاف کر دیا‘ تاکہ وہ دوبارہ عوام کو نوالہ بناتے رہیں‘ اس سے زیادہ غیر اصولی بات کوئی ہو نہیں سکتی تھی۔ لیکن شومیٔ قسمت ملاحظہ فرمائیے کہ نہ مشرف کو پانچ سال کی صدارت ملی اور نہ ہی محترمہ کو وزارتِ عظمیٰ ‘ مزا کوئی اور لُوٹ گیا۔
کیا کیا بیان کیا جائے؟ فہرست بہت طویل ہے۔ لیکن ظاہر ہے جب مقدمہ شروع ہو گا تو سب چیزیں سامنے آ جائیں گی۔ اکیلی آئین کی معطلی کی سزا ہی موت ہے۔ بہرحال مقدمہ ضرور چلنا چاہیے اور جلد از جلد دائر ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو عوام یہ نتیجہ اخد کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ وطنِ عزیز کی سب سے بڑی ہستی این آر او کے احسانات کے عوض آپ کو بچانا چاہتی ہے۔ اس صورت میں مقدمہ چلانے کے لئے بھرپور تحریک شروع ہونی چاہیے اور مقصد کے حصول تک جاری رہنی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی سٹے باز قوم کی قسمت سے کھیلنے کی جرأت نہ کرے‘ نہ قوم کو ایک ہزار سال پیچھے لے جائے اور نہ ہی اپنے ذاتی اقتدارِ اعلیٰ کی خاطر ساری فوج کو بدنام کرے۔