برادرانہ اور حاکمانہ اتفاق

ہمیں نہایت دکھ کے ساتھ اعلان کرنا پڑ رہا ہے کہ حاکم برادران ہماری ان امیدوں پر پورے اترے ہیں جن کا ہم نے ’’دڑوٹ…‘‘ کالم میں گمان کیا تھا۔ اس کے لئے ہمیں اور کس کس کا شکرگزار ہونا چاہئے‘ اپنے حکمران برادران کے علاوہ؟ ایک تو ہوئے بارک حسین اوباما دوسرے ہوئے ڈیوڈ ملی بینڈ اور ایک ہوئے امیر قطر‘ اگر گردن گھما کر دیکھا جائے تو اسامہ بن لادن‘ حضرت ایمن الظواہری‘ مولانا بیت اللہ محسود اور ان کے فدائی بھی ہمارے شکریہ کے حقدار دکھائی دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ جو بھی کوئی اس حوالے سے اپنے آپ کو ہمارے شکریہ کا حقدار سمجھتا ہے وہ ہمارا شکریہ قبول فرمائے اور اعلان شرم الشیخ اور اعلان رائیونڈ کو ایک ساتھ رکھ کر ان پر غور فرمائے کہ ایک ہی دن کے فرق سے ہمیں کتنے عظیم تحائف نصیب ہو گئے ہیں۔ ایک صاحب اپنے سر کے بالوں کا بوجھ ہلکا کروانے گئے۔ ماہر اصلاح گیسو نے استرا تیز کیا اور بہت ہی اچھی طرح حجامت بنا دی۔ ان کی چمکتی دمکتی ٹنڈ بنا ڈالی ان کے سر کی اور بھاری بل سامنے رکھ دیا۔ ان صاحب نے آئینے میں اپنی ٹنڈ دیکھی‘ لمبی آہ کھینچ کر بھاری بل ادا کیا ’’خرچ تو بہت ہو گیا ہے مگر چیز اچھی بن گئی ہے‘‘ ٹنڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سر جھکائے دکان سے باہر آ گئے۔ اعلان شرم الشیخ کو اور اس پر اٹھنے والے بھاری اخراجات کو دیکھیں اور اس کے بعد اعلان رائیونڈ کو اور اس پر اٹھنے والے اس غریب مسکین قوم کے اخراجات کو دیکھا جائے تو کیا ہم اہل پاکستان بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’’خرچ‘‘ تو بہت ہو گیا ہے مگر ٹنڈ اچھی بن گئی ہے۔ اس ٹنڈ کے حسن کو پہچاننے کے لئے فہم و شعور کا آئینہ بے داغ ہونا چاہئے۔ اس پر دانش درباری کا کوئی دھبہ نہ ہو۔ شرم الشیخ اعلامیہ پر دستخط کرنے والوں نے دہشت گردی کو اس خطہ کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا اور اس کے خلاف مل کر لڑنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اعلامیہ رائیونڈ میں بھی اسے ہی سب سے بڑا چیلنج قرار دیا گیا تھا اور فریقین نے اس کے خلاف مل جل کر جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ شرم الشیخ اعلامیہ میں باہمی مسائل اور دونوں ملکوں سے غربت دور کرنے کیلئے دونوں ممالک کے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔ رائیونڈ اعلامیہ میں کہا گیا تھا ’’اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ جمہوریت کو پروان چڑھانے‘ عوامی مسائل کے حل اور ملکی و قومی مفاد میں دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے‘‘۔ ایسے مذاکرات کب تک جاری رہنا چاہئے؟ دونوں اعلامیے اس بارے میں خاموش ہیں۔ گویا بنیادی ضرورت مذاکرات ہے‘ باقی سب بعد کی باتیں ہیں‘ دیکھی جائیں گی۔ کب بعد میں؟ کچھ نہیں بتایا گیا۔ یہ بھی پڑھا ہے کہ مذاکرات میں بجلی کی نایابی اور لوڈشیڈنگ پر بھی تبادلہ فہم و فراست کیا گیا تھا۔ اس بارے میں بھی اتفاق ’’ہتھ گھُٹ کے پھڑلے میرا بڑا ھنیرا ای‘‘۔ پر ہی ہوا تھا۔ اس لئے ہی نہیں کہ خواجہ آصف شریف برادران کی کچن کیبنٹ کے رکن ہیں یا دوسروں کی نسبت کچھ بڑبولے واقع ہوئے ہیں اس لئے بھی کہ وہ خواجہ صفدر مرحوم کی سیاسی گدی کے وارث ہیں۔ ہم ان کی بات اور فرمودات کو ذرا دھیان سے سننے کی کوشش کرتے ہیں۔ رائیونڈ مذاکرات سے سولہ اٹھارہ گھنٹے ہی پہلے وہ کہہ رہے تھے کہ ’’ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں اور کرپشن بہت بڑھ گئی ہے‘‘۔ یہ انکشاف انہوں نے ایک ٹیلی ویژن والے کے اس ’’ملاقات‘‘ کے بارے میں سوال کے جواب میں فرمایا تھا۔ ان چار گھنٹے طویل مذاکرات میں وہ بھی شریک تھے‘ کیا یہی بات انہوں نے اپنی پارٹی کے قائد اور ان کے برادر خورد کو بھی بتائی تھی؟ ان کے مقام و مرتبہ کو دیکھا جائے تو یقین سا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ اتنی اہم اور بنیادی حقیقت سے انہوں نے لازماً آگاہ فرمایا ہو گا انہیں بھی۔ اگر ایسا ہے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں اور خواجہ آصف نے اس ملاقات کے شرکاء کو اس سے آگاہ بھی فرما دیا تھا تو پھر وہ چیز ہے کیا جس کی مضبوطی اور استحکام کے لئے حاکم برادران نے مکمل اتفاق کیا تھا؟ کرپشن؟… جمہوریت تو ان کے پارٹی قائد کہتے ہیں کہ میثاق جمہوریت پر عمل درآمد سے ہی آئے گی۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے بارے میں میاں صاحب فرما چکے ہیں لندن میں کہ پاکستان میں پائی نہیں جاتی حکمرانی صدر کی ہے اور قائد ایوان بے چارہ بن کر رہ گیا ہے۔ ملاقات اور مذاکرات کے بعد آصف علی زرداری نے میاں شہباز شریف کی کابینہ سے بھی خطاب فرمایا تھا۔ ان کو گواہ بنا کر ان کی کابینہ کے ارکان کو کافی خوش خبریاں بھی سنائی تھیں۔ گورنر پنجاب نے بھی اپنے لیڈر کو گواہ بنا کر شریف برادران کے لئے اچھے اچھے جذبات کا اظہار کیا تھا گویا بڑے بھائی سے ملاقات کے اسی روز ان کے میانہ بھائی کی حکومت پر خوشگوار اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ اس معاملے میں بھی ہماری بدگمانی پر پورے اترے تھے حاکم برادران۔ اگا پچھا دیکھ اگر اس چیز کو ڈھونڈا جائے جس کے استحکام اور مضبوطی پر کامل اتفاق کیا گیا تھا اس روز تو وہ ایک دوسرے کی حکمرانی کے سوا کچھ اور دکھائی نہیں دے رہی۔ سید یوسف رضا گیلانی کے جس آئینی آپریشن کلین اپ کا ہم نے ایک روز ذکر کیا تھا اس پر کیا اثرات مرتب ہونگے اس طویل ترین ملاقات کے؟ میاں شہباز شریف کی کابینہ سے خطاب میں صدر مکرم نے بتایا تھا کہ ان کے ووٹروں کے کھیتوں کی پیاس کا انہیں علم ہو گیا ہے اور وہ بھارت کی اس جارحیت کے فیصلہ کے لئے اقوام متحدہ سے ماہرین بھیجنے کی درخواست کریں گے۔ ہو سکتا ہے انہوں نے صدر اور وزیراعظم کے اختیارات کے اس جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے لئے بھی اقوام متحدہ سے ماہرین بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہو اور شریفین کو چپکے سے آگاہ فرما گئے ہوں۔ اپنی بی بی جی کے قاتلوں کو جانتے ہوئے بھی جب انہوں نے تفتیش اقوام متحدہ سے کرانے کا فیصلہ سنایا تھا تو ان کی پارٹی کے اندر اور باہر والوں سب نے اس فیصلہ کے سامنے سر جھکا دیئے تھے۔ اب بھی سب کو ’’جو مزاج یار میں آئے‘‘ پر ہی اتفاق کرنا دکھائی دیتا ہے۔ کیا بتاتے ہیں میاں برادران کے انداز حاکمانہ؟ تو پھر ’’ہتھ گھُٹ کے پھڑ لے میرا بڑا ھنیرا ای‘‘ پر اتفاق برادرانہ میں ہے کچھ عوام کے لئے؟

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...