مسٹر اینڈ مسز جمہوریت کی غلامانہ کامیابیاں

Jul 20, 2010

رفیق ڈوگر
باوردی پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان امریکہ کے کرائے این آر او کے تحت پاکستان میں فروری 2008ءمیں عام انتخابات ہوئے تھے عوام کی منتخب قومی اسمبلی نے 17 مارچ 2008ءکو حلف اٹھایا تھا اور اس اسمبلی نے 24 مارچ 2008ءکو اس جمہوریت کا چیف ایگزیکٹو منتخب کیا تھا۔ کتنے ماہ ہو گئی تھی سترہ جولائی 2010ءکو اس جمہوریت کی عمر؟ اگر اسمبلی کے حلف لینے سے شمار کریں تو اٹھائیس ماہ بنتی ہے اور اگر سید اور گیلانی یوسف رضا گیلانی کے اس این آر او جمہوریت کے چیف منتخب ہونے کی تاریخ کو اس بے نظیر جمہوریت کا یوم پیدائش شمار کریں تو اس کی عمر پونے اٹھائیس ماہ بنتی ہے اور مسٹر رچرڈ ہالبروک نے سترہ جولائی کو این آر او شاہ سے ملاقات کے بعد اپنے خصوصی خطاب میں فرمایا تھا کہ ”گزشتہ 20 ماہ میں پاکستان نے جمہوریت کی حکمرانی میں بہت ترقی کی ہے اور پاکستان کی جمہوری حکومت نے بے پناہ کامیابیاں حاصل کی ہیں“۔ مسٹر ہالبروک امریکہ کے صدر کے پاکستان اور افغانستان کے لئے خصوصی مشیر ہیں تو اگر اس جمہوریت کی عمر 20 ماہ ہے تو وہ اس کی تاریخ پیدائش نہ تو 17 مارچ 2008ءکو مانتے ہیں اور نہ ہی سید اور یوسف رضا گیلانی کو اپنی ہی عطا کردہ اس جمہوریت کا چیف ایگزیکٹو سمجھتے ہیں اگر وہ جمہوریت کے سب سے بڑے ادارے قومی اسمبلی کے حلف لینے کو اس جمہوریت کا آغاز نہیں سمجھتے جو بے نظیر کا تحفہ بتائی جاتی ہے تو وہ کس بیس ماہ کی جمہوریت کی ”بے پناہ کامیابیوں “ کی خوشخبری سنا رہے تھے؟ ہم بے نظیر جمہوریت کے سب سے بڑے ادارے قومی اسمبلی اور اس کے چنے ہوئے چیف ایگزیکٹو سید اور یوسف رضا گیلانی کی جمہوریت کی حکمرانی کو کس کھوہ کھاتے میں ڈال دیں؟ اس جمہوریت کی عمر 20 ماہ کیسے بنتی ہے جس نے بقول رچرڈ ہالبروک کے ”بیس ماہ میں بے پناہ کامیابیاں حاصل کی ہیں“ کسی بھی حوالے سے حساب کریں تو پاکستان کی اس اعلیٰ ترین کارکردگی والی جمہوریت کی عمر بیس ماہ این آر او شاہ کی ایوان صدر میں منتقلی کے بعد سے ہی بنتی ہے گویا ہالبروک نہ تو اس ملک کے منتخب جمہوری ادارے کو حکمران جمہوریت سمجھتے ہیں اور نہ ہی اس کے منتخب کئے ہوئے سید یوسف رضا گیلانی کو اس بے نظیر جمہوریت کا چیف ایگزیکٹو مانتے ہیں پھر تو پاکستان کی وہ جمہوریت جس نے بے پناہ کامیابیاں حاصل کی ہیں نام ہے بلوچ سردار آصف علی زرداری کا۔ ہم نہیں کہہ رہے یہ۔ اس ملک کے صدر کا مشیر کہہ رہا ہے جس نے ہمیں یہ این آر او جمہوریت اور این آر او شاہ عطا کئے ہوئے ہیں۔ تیس اپریل 2009ءکو مسٹر ہالبروک کو مشیر مقرر کرنے والے امریکی صدر بارک اوباما نے اپنی حکمرانی کے سو دنوں کی کارکردگی کے بارے میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ”میں پاکستان کی حکومت کے استحکام کے حوالے سے گہری تشویش میں ہوں وہ حکومت عوام کو صحت تعلیم قانون کی حکمرانی اورامن وامان جیسی بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ بھارت سے نہیں اندرونی طور پر ہے میں پاکستان کے حالات کے بارے میں بہت فکر مند ہوں“ بارک حسین اوباما کی یہ تشخیص اور فکر مندی صدر آصف علی زرداری کے لئے استقبالیہ خطبہ تھی جو ان سے خصوصی ملاقات کے لئے اس روز پاکستان سے روانہ ہو چکے تھے۔ صدر آصف علی زرداری کے اسی دورہ امریکہ کے دوران ہلیری نے انہیں اور افغان صدر کو ساتھ بٹھا کر جو پریس کانفرنس کی تھی اس میں ہلیری نے کہا تھا ”پاکستان کو اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہو گی “ گویا امریکہ کے صدر سے اس کی وزیر خارجہ تک پاکستانی جمہوریت یعنی مسٹر بے نظیر جمہوریت کی کارکردگی کے کسی بھی پہلو سے مطمئن نہیں تھی۔ اگرچہ اسی دورہ و دور مایوسی کے دوران ہمارے صدر آصف علی زرداری نے ایک خصوصی ٹی وی پروگرام میں اہل امریکہ کو بتایا تھا کہ ”میں نے کبھی بھارت کو خطرہ نہیں سمجھا میں نے بھارتی سرحدوں پر متعین فوج شمالی علاقوں میں منتقل کر دی ہے اور ملک کو اقتصادی اور معاشی بحرانوں سے نکال لیا ہے“ ایک اور امریکی ٹی وی کو دیئے انٹرویو میں صدر آصف علی زرداری نے کہا تھا ”مشرف طالبان کے حامی تھے ملک میں فوج سمیت ہر چیز پر میرا کنٹرول ہے“ انہیں دنوں امریکی ادارے انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ نے پاکستان کے لوگوں کی رائے کی جو سروے رپورٹ شائع کی تھی اس میں بتایا گیا تھا کہ ”صدر آصف علی زرداری کو صرف 19 فیصد لوگوں کی حمایت حاصل ہے مئی 2009ءہی کے دوسرے ہفتہ میں مشہور جریدے ٹائم نے خصوصی خبر دی تھی کہ ”امریکہ پریشان ہے کیونکہ حامد کرزئی اور آصف علی زرداری میں سے کوئی بھی اعلیٰ سیاسی اقدار کا نمونہ نہیں اور صدر امریکہ نے ہالبروک اور پیٹریاس کو ان دونوں کو سٹیٹسمین بنانے کی کوششیں جاری رکھنے کو کہا ہے“ تو کیا پاکستانی جمہوریت کی وہ بے پناہ کامیابیاں ہالبروک اور پیٹریاس کی اسی محنت اور تربیت کا نتیجہ ہیں؟ مگر وہ بے پناہ کامیابیاں ہم پاکستانی عوام کو کیوں کہیں دکھائی سُجھائی نہیں دے رہیں“ قانون کی حکمرانی امن و امان تعلیم اور صحت کی وہ سہولتیں جن کے بارے میں بارک حسین اوباما اتنے پریشان ہوتے تھے وہ این آر او شاہ ان کے چیف ترین ایگزیکٹو اور استاد محترم مسٹر ہالبروک کے سوا کسی اور کو کہیں دکھائی کیوں نہیں دے رہیں؟ یا پھر ہماری جمہوریت کے اصلی آقا کا اس بی بی کی کارکردگی کا معیار بدل گیا ہے؟ پاکستان کے عوام کو سہولیات فراہم کرنے کی بجائے چچا سام کی خدمت اور غلامی ہو گیا ہے اس این آر او جمہوریت کی بے پناہ کامیابیوں کا معیار؟ اس حوالے سے تو ان بیس ماہ میں واقعی اس جمہوریت نے بے پناہ کامیابیاں حاصل کی ہیں اپنی خادم خاص مسٹر اینڈ مسز جمہوریت کے دشمنوں کی حرکات و سکنات کے بارے میں بھی مسٹر ہالبروک اس کے دوسرے درجہ کے مالک اور اس کے چیف کی مانند ہی فکر مند دکھائی دیتے ہیں کہ ”جمہوریت کے دشمن متحرک ہو گئے ہیں“ یعنی مسٹر اینڈ مسز جمہوریت کی امریکہ کی دست بستہ غلامی کے دشمن سید اور گیلانی فرماتے ہیں کہ ان کی غلامانہ حکومت پانچ سال پورے کرے گی۔ ہالبروک کے اس سرٹیفیکیٹ کے بعد ہے اس میں شبہ کرنے کی کوئی گنجائش؟ وہ جو لارڈ کلائیو ہو گزرا ہے اس نے کیا فارمولا دیا تھا سامراجی تہذیب کے علمبرداروں کو؟ یہ کہ جس کسی حکمران کے عوام اس کی حکمرانی اور زرخوری سے تنگ ہوں اس کو اپنا لو وہ تمہاری سرپرستی اور گود کی گرمی کی وجہ سے جو چاہو گے کرے گا اور اسے یہ بھی بتا دو کہ تم ہماری وجہ سے ہی ہو اگر کوئی کوتاہی کی تو ہمارے پاس تمہارا متبادل بھی ہے اسے اس متبادل کا چہرہ بھی دکھاتے رہو جو چاہو گے وہ کرے گا اور جو چاہو گے لائن حاضر متبادل بھی کرتا رہے گا۔ صلیبی سامراجیوں نے دنیا میں ہر کہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس لارڈ کے دیئے اس فارمولا پر کام کیا ہے اور کر رہے ہیں اور ان کی عطا کردہ جمہوریت نے آصف علی زرداری کے انتخاب لاجواب کے بعد سے بے پناہ کامیابیاں حاصل کی ہیں جسے بھی شبہ ہو وہ ہالبروک کی عینک مانگ کر دیکھ لے۔
مزیدخبریں