اتنے ”واٹ“ کہاں سے آئے؟

پاکستان کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے 225 میگا واٹ کے بلوکی پاور پلانٹ کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان کی حکومت آئندہ دس برس کے دوران 20 ہزار میگا واٹ برقی توانائی کا حصول یقینی بنانے کیلئے متعدد منصوبوں پر کام کر رہی ہے! جبکہ 2008ءسے 2010ءتک کے دوران 18 ارب روپے کی لاگت کے 17 ترسیلی میگا پراجیکٹ مکمل کر چکی ہے!
برقی پیداواری نظام کے آغاز کار سے پہلے برقی ترسیلی نظام کی تکمیل ایک لازمی امر ہوتی ہے، لہذا ترسیلی نظام کے لئے 17 میگا پراجیکٹس کی تکمیل ایک اچھا انڈیکیٹر ہے اور اس سلسلے میں حکومت کے سنجیدہ ہونے کی اچھی شہادت ہے!
پیرسائیں نے اٹک پاور، نشاط پاور اور کورنگی کمبائینڈ سائیکل پاور پراجیکٹ کے بعد بلوکی پاور پلانٹ کا ذکر کرتے ہوئے اسے ڈیڑھ سال کے دوران کارفرما ہونے والا پانچواں برقی پیداواری منصوبہ قرار دیا اور بتایا کہ اس بجلی گھر سے سستی برقی توانائی مہیا ہوگی! اور اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ اس منصوبے کیلئے ”گیس کی فراہمی“ کی تصدیق ہو جانے کے بعد اس منصوبے کے سپانسرز اس بجلی گھر کے دوسرے مرحلے کی تکمیل کے کام سے لگ جانے پر آمادگی ظاہر کر چکے ہیں! یاد رہے اس منصوبے میں حکومت مسقط و عمان اپنی ”عمان آئل کمپنی“ اور حکومت جرمنی اپنے ”ڈویلپمنٹ فنانس انسٹی ٹیوشن“ کے ذریعے تعاون کر رہی ہیں!
پیر سائیں سید یوسف رضا گیلانی نے بتایا کہ 20 ہزار میگا واٹ برقی توانائی میں سے 6 ہزار میگا واٹ ”پانی“ 6 ہزار میگا واٹ ”کوئلے“ اور 5 ہزار میگا واٹ ”گیس“ کے ذریعے جبکہ ایک ہزار میگا واٹ ”مقامی ایندھن“ 2 ہزار میگا واٹ شمسی اور 2 ہزار میگا واٹ ”ہوائی“ توانائی سے حاصل ہوں گے! ”مقامی ایندھن“ سے مراد بے کار مگر جلائی جا سکنے والی ”کوڑا کرکٹ“ اشیاءپر مبنی ایندھن ہے! ۔
پیر سائیں کو یہ جان کر بھی بہت خوشی ہوئی کہ ان کی حکومت ”ہائیڈل“ اور ”تھرمل“ بجلی گھروں سے 1708 میگا واٹ اضافی بجلی بھی حاصل کر رہی ہے جبکہ دسمبر 2010ءتک مزید 2796 میگا واٹ اضافی برقی توانائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جانے کی توقع رکھتی ہے!
پیر سائیں نے بتایا کہ ”بجلی بچت اقدامات“ کے ذریعے چار کروڑ روپے روزانہ کی بچت ہو رہی ہے، شام کے اوقات میں برقی کھپت کم ہو جانے سے روزانہ 6 کروڑ 50 لاکھ روپے کی بچت ممکن ہوتی ہے! ”بجلی بچت“ کے ساتھ ساتھ ”برقی پیداوار میں اضافے“ کے اقدامات جاری رکھنے کے عزم کے اظہار کرتے ہوئے انہوں نے ”بلوکی پاور پلانٹ“ چالو ہو جانے کا اعلان کیا اور ایک طرفہ گڑگڑاہٹ نے ماحول کو یکسر ”حیرت زدہ“ اور پھر پرجوش تالیوں کا ”حیرت کدہ“ بنا دیا!
جب کبھی کوئی ”تعمیری کام“ اپنا ٹھوس اظہار کرتا ہے، تو ہم ایک ”پاکستانی“ کی حیثیت سے سراپا، تعریف و توصیف، ہو جاتے ہیں! اور ہم، اتنے واٹ کہاں سے آئے؟ سمجھ نہ ہم پائے! گنگناتے، گھر سے بیٹھک کی طرف روانہ ہو گئے! راستے میں ہم سوچ رہے تھے کہ ہمارے ”پیر سائیں“ بھی 99 کے پھیر میں آ گئے اور اپنی کارکردگی کا حساب کتاب پیش کرنے کے کام سے لگ لئے ہیں!
تمام ”مریدانِ باصفا“ تک نوید پہنچے کہ ”پیر سائیں“ کی طرح ”اعدادو شمار“ بھی جھوٹ نہیں بولا کرتے اور ”دنیا“ بھی ”اعدادو شمار“ کے سوا کسی سچ کو بھی سچ نہیں مانتی! بلکہ اعدادو شمار کے ساتھ پیش کئے گئے ”حقائق“ میں سے بھی صرف انہی ”حقائق“ پر غور کرتی ہے جن کا ساتھ ”اعدادو شمار“ دے رہے ہوں۔ مثلاً یہ حقائق کہ اب بہت بڑے بڑے گھروں میں صرف سہ نفری خاندان رہ رہے ہیں! بڑی بڑی ڈگریاں رکھنے والے اس ”شے“ سے یکسر طور پر عاری ہیں جسے بھلے زمانے میں ”کامن سینس“ کے نام سے پکارا جاتا تھا! نئی نویلی ترقی یافتہ دوائیں کھانے والے ”عمومی صحت“ میں بگاڑ کا شکار ہو چکے ہیں! ہم چاند پر قدم رکھ چکے ہیں مگر زمین کی تباہی کے چارٹر سے دست بردار ہونے پر تیار نہیں! ہماری آمدنی بے پناہ ہو چکی ہے مگر دن کا چین اور رات کا آرام ہوا ہو چکا ہے! غارت گروں نے ہمیں کیسے جھلمل اندھیاروں میں دھکیل دیا! اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ ”داغ“ اور ”چراغ“ کا فرق مٹا رہے ہیں! بقول محترمہ حمیرا راحت!
ایسا منظر بھی آنکھ نے دیکھا
تھا دیا اپنی روشنی سے الگ
”پیرسائیں“ اب ”ویئے اور روشنی“ کو یکجا کرنے کیلئے ”تعویذ“ ہر خاص و عام کے گلے کا ہار بنا رہے ہیں توقع ہے کہ ایک جگمگ ایک جھلمل بھی عام ہونے والی ہے! اللہ کرے گلف پاور پلانٹ جلد کام کرنے لگے! آمین!

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...