جب کراچی میں کلاشنکوف چلتی ہے تو ہمیں جنرل ضیاءالحق کا مارشل لاءاور پیپلز پارٹی سے ان کی خاص الخاص محبت (پیپلز پارٹی کے ورکروں اور کارکنوں کو کوڑے مار مار کر اپنی محبت کا یقین دلانا) یاد آ جاتی ہے۔ بھٹو صاحب کا جب کیس عدالت میں تھا تو پوری دنیا کے سربراہ اور دیگر لوگ بھٹو صاحب کی رہائی کے لئے اپیلیں کر رہے تھے لیکن جنرل ضیاءالحق ان اپیلوں کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے یعنی یہ ان کا کام نہیں ہے، یہ عدالت کا کام ہے۔ ان کا جو کام تھا، انہوں نے خوب کیا۔ نوے دن کو لسی سمجھا اور اس میں پانی ملانے کی خاطر نلکا گیڑنے پر کئی اردلیوں کو مامور کر دیا۔ سنا ہے کہ جنرل ضیاءالحق مرحوم و مغفور سے ان کی والدہ نے بھٹو صاحب کی رہائی کی اپیل کی تھی جس پر انہوں نے اپنی والدہ صاحبہ سے بڑے ادب سے کہا تھا ”ماں جی! قبر ایک ہے اور بندے دو ہیں“ امریکہ بہادر کی خواہش تھی کہ سامراج کو سرِعام للکارنے والے اسلامی دنیا کو اپنا الگ مضبوط بلاک بنا کر ایک قوت بننے کا خواب دیکھنے والے اور شاہ فیصل کے ساتھ مل کر پاکستان میں ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے والے خطرناک لیڈر کو راستے سے ہٹا کر اپنی مرضی اور پالیسیوں کے مطابق پاکستان چلایا جائے۔ بھٹو صاحب کا سیاسی کیرئر جب تختہ دار پر ختم کر دیا گیا تو گلیاں سنجیاں ہو گئیں۔ اب مرزا یار کو ان گلیوں میں پھرنے اور کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ جنرل ضیاءالحق صاحب کو روس کے ساتھ متھا لگانے کا ٹاسک مل گیا۔ امریکہ نے ہمارے جنرل صاحب کو اس کام میں لگائے رکھا اور یہیں سے کلاشنکوف کلچر کا آغاز ہو گیا۔ جنرل ضیاءالحق نے پیپلز پارٹی کو نیچا دکھانے اور اسے دیوار سے لگانے کے لئے بڑی محنت اور عرق ریزی کی۔ اس عرق ریزی کا نتیجہ اس وقت سے لے کر آج تک خون ریزی کی صورت میں اکثر نکلتا رہتا ہے۔ اگر ملک میں سیاسی حالات خراب ہو گئے اور نوبت کرفیو تک پہنچ چکی تھی تو جنرل ضیاءالحق کو چاہئے تھا کہ آپ پارٹی نہ بنیں اور نوے دن میں نہ سہی نوے ضرب تین 270 دن میں الیکشن کرا کر چلے جائیں اور آپ قائداعظمؒ کے فرمان کے مطابق سرحدوں کی حفاظت کریں۔ کراچی جو روشنیوں کا شہر تھا امن و سکون کا گہوارہ تھا۔ کاروباری شہر تھا۔ یہاں نسیم بری اور نسیم بحری سے زیادہ کلاشنکوف چلنے لگی۔ محترم مشتاق یوسفی صاحب نے اس صورتحال کے بارے میں فرمایا تھا
مردوں کو گِنا کرتے ہیں، بولا نہیں کرتے
اجڑی پھلواڑی ہو یا کٹی پہاڑی لیاری محلہ بہاری ہو، ناظم آباد ہو یا اس طرح کی دیگر بستیاں۔ یہاں گینگ اور گروپ بن گئے بلکہ اپنے اپنے علاقوں کے وار لارڈ سامنے آ گئے۔ پختون، سندھی، مہاجر اور پنجابی کی تفریق کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ بھتہ خوری کا کام عروج پر پہنچ گیا۔ پچھلے چند دن میں جتنی کلاشنکوف چلی ہے اور جتنی لاشیں گری ہیں کیا قائداعظم محمد علی جناحؒ کی روح کو تکلیف نہ ہوئی ہو گی۔ جب کراچی میں گولی چلتی ہے تو مرنے والوں کا تو آب و دانہ ختم ہو جاتا ہے لیکن جو زندہ لوگ گھروں میں جس عذاب سے گزرتے ہیں وہ خود جانتے ہیں یا خدا جانتا ہے۔ بستیوں کے مکین پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ بچے روٹی کے لقمے کے لئے بلکتے ہیں۔ زندگی بڑی عجیب و غریب چیز ہے۔ ادھر کلاشنکوف تھمی، ادھر لوگ ضروریات زندگی کی خاطر گھروں سے نکل پڑے۔ سب کلمہ گو ہیں۔ سب ایک خدا، ایک کتاب اور ایک رسولﷺ پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ قتل کسی چیز کا حل نہیں بتاتا۔ قتل تو قتل کو جنم دیتا ہے۔ آخر آئے دن کراچی میں ہونے والے ان فسادات کی روک تھام کے بارے میں کس نے سوچنا ہے؟ وہاں کے باسیوں اور مکینوں نے فوج نے، رینجرز نے، پولیس نے۔ سماجی کارکنوں نے مختلف سیاسی پارٹیوں نے یا عدالتوں نے؟ معاشرے ایک دوسرے کو قتل کرنے سے نہیں بنتے۔ معاشرے محبت، رواداری، برداشت اخلاق، ایثار، وسیع القلبی اور وسیع الظرفی سے تعمیر ہوتے ہیں۔
مردوں کو گِنا کرتے ہیں، بولا نہیں کرتے
اجڑی پھلواڑی ہو یا کٹی پہاڑی لیاری محلہ بہاری ہو، ناظم آباد ہو یا اس طرح کی دیگر بستیاں۔ یہاں گینگ اور گروپ بن گئے بلکہ اپنے اپنے علاقوں کے وار لارڈ سامنے آ گئے۔ پختون، سندھی، مہاجر اور پنجابی کی تفریق کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ بھتہ خوری کا کام عروج پر پہنچ گیا۔ پچھلے چند دن میں جتنی کلاشنکوف چلی ہے اور جتنی لاشیں گری ہیں کیا قائداعظم محمد علی جناحؒ کی روح کو تکلیف نہ ہوئی ہو گی۔ جب کراچی میں گولی چلتی ہے تو مرنے والوں کا تو آب و دانہ ختم ہو جاتا ہے لیکن جو زندہ لوگ گھروں میں جس عذاب سے گزرتے ہیں وہ خود جانتے ہیں یا خدا جانتا ہے۔ بستیوں کے مکین پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ بچے روٹی کے لقمے کے لئے بلکتے ہیں۔ زندگی بڑی عجیب و غریب چیز ہے۔ ادھر کلاشنکوف تھمی، ادھر لوگ ضروریات زندگی کی خاطر گھروں سے نکل پڑے۔ سب کلمہ گو ہیں۔ سب ایک خدا، ایک کتاب اور ایک رسولﷺ پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ قتل کسی چیز کا حل نہیں بتاتا۔ قتل تو قتل کو جنم دیتا ہے۔ آخر آئے دن کراچی میں ہونے والے ان فسادات کی روک تھام کے بارے میں کس نے سوچنا ہے؟ وہاں کے باسیوں اور مکینوں نے فوج نے، رینجرز نے، پولیس نے۔ سماجی کارکنوں نے مختلف سیاسی پارٹیوں نے یا عدالتوں نے؟ معاشرے ایک دوسرے کو قتل کرنے سے نہیں بنتے۔ معاشرے محبت، رواداری، برداشت اخلاق، ایثار، وسیع القلبی اور وسیع الظرفی سے تعمیر ہوتے ہیں۔