یوٹرن اور اباﺅٹ ٹرن

Jul 20, 2012

نواز خان میرانی

ہم کتنے سادہ لوح ہیں کہ جو یوٹرن کو صرف مشرف جیسے زندہ و تابندہ جنرل نیازی سے منسوب کر دیتے ہیں اور ان کے بعد آنیوالے جیالوں اور آفت کے پرکالوں کے کارناموں کو گہنا کر ان کی دل شکنی کے مرتکب ہوکر مسجد اور مندر ڈھانے کی بجائے ان کا دل ڈھا دیتے ہیں۔عوام تو ویسے ہی حیرت زدہ ہوکر سوچتے ہیں۔ ساٹھ سال تک ”اباﺅٹ ٹرن“ کی مشق کرنے والا کمانڈو یکدم یوٹرن لینا کس سے سیکھا ہے۔ کہ اسکی دیکھا دیکھی ہماری وزیرخارجہ حنا ربانی کھر اپنی سیٹ پکی کرنے کیلئے امریکی وزیرخارجہ ہلیری کوہاتھ دبا کر کہتی ہے۔ مُٹھ رکھ، معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔ نیٹو سپلائی ہم کھول دیں گے ہمیں کنٹینرز کا کوئی معاوضہ نہیں چاہئے ہم وہ پیسے بھی نہیں لیں گے جو سپلائی بند ہونے سے پہلے آپ سے لیتے تھے۔ بس احتیاط برتئے ذرا دست شفقت ہمارے سر سے اٹھنے نہ پائے۔
محبوب ”زرداری“ کو صرف گورنر سردار محمد لطیف خان کھوسہ کا نام ازبر ہے اور وہ سب سے زیادہ انہی پر اعتبار کرتے ہیں چونکہ یاروں کے یار والی خاصیت کھوسہ صاحب اور زرداری صاحب میںمشترکہ ہے کھوسہ صاحب نے چیف جسٹس کی قربت، رفاقت اور رازداری کو صدر کی یاری اور وفاداری پہ قربان کر دیا جبکہ چیف جسٹس کی بحالی کےلئے مظاہرہ کرنے اور جلوس کی قیادت کرنے پہ سر پہ لاٹھی کھا کر پورے چہرے کولہولہان اور بیٹے خرم کھوسہ کے بازو کو تڑوا لیا تھا کھوسہ صاحب کی یاری، زرداری صاحب سے بہت پرانی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے کیس بھی کھوسہ صاحب کے پاس تھے، اعتماد اور بھروسہ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ میاں بیوی نے سنیٹر گلزار احمد جیسا اپنائیت کا مظاہرہ کیا اور بے نظیر شہید نے اپنا لاہور میں آخری قیام کھوسہ صاحب کی رہائش گاہ میں کیا۔
اب اتنے قابل اعتماد وفادار کے کہنے پر ترامیم، آرڈی ننس آنے شروع ہو جائیں تو ہمیں حیران ہونیکی کیا ضرورت ہے۔ قانون کو تو لطیف خان جیسے قانون دان جانتے ہیں، صرف قانون کو ہی نہیں، وکلا اور جج صاحبان کیساتھ انہوں نے ساری عمر بتا دی ہے ۔ بابر اعوان کے بارے میں بھی حیران ہونیکی ضرورت نہیں، نہ رحمان ملک کو متزلزل دیکھ کر فکر مند ہونا چاہئے۔ اس بات پہ بھی غور و فکر میں غوطہ زن ہونیکی ضرورت نہیں کہ سابق گورنر سلمان تاثیر اور گورنر لطیف خان، کالا باغ کے حق میں کیوں ہیں۔
کالا باغ کی تعمیر ہر محب وطن کے دل کی آواز ہے۔ اور اس کی تعمیر کے اعلان کا سہرا جس حکمران کے سر ہو گا وہ تازیست بھی حکمران ہو سکتا ہے۔ تھرکول کے منصوبے کو دوبارہ فعال بنانا بھی صدارت کو دوبارہ مستحکم کرنے کی جانب اہم قدم ہے اور بھائی فخرو (جسٹس فخر الدین) صرف اپوزیشن کے ہی بھائی نہیں۔ وہ صدر کی جُورو کے بھی بھائی تھے اور یوٹرن لینے والے اباﺅٹ ٹرن کرتے ہوئے، آخری وقت اور آخری لمحوں میں ہوم ورک مکمل کرکے چیف جسٹس کے کہنے پر خط لکھ کر ہم سب کو حیران کر سکتے ہیںکیونکہ چند سطریں توفاروق نائیک بھی لکھ سکتے ہیں۔ چاہے لوگ انہیں منشی کہتے رہیں۔ پانچ سال عوام نے تصویر کا ایک رخ دیکھا ہے، اگلے پانچ سال تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کا پروگرام ہے۔ متفقہ الیکشن کمشنر پہ نہ تو نواز شریف اور نہ ہی عمران خان اعتراض کر سکیں گے۔ جہاں تک مولانا فضل الرحمن کا تعلق ہے وہ تو (فاٹا) سے نسبت کیوجہ سے ہر حاکم کے ساتھ کچھ لو کی بنیاد پر نہیں کچھ دو کی بنیاد پر خود بھی حاکم بن جاتے ہیں!!!

مزیدخبریں