بالآخر لاہور آرٹس کونسل کا نئے سال کا بجٹ بھی منظور ہو گیا۔ لاہور میں آرٹ اور ثقافت کی ترقی میں سب سے اہم کردار ادا کرنے والی لاہور آرٹس کونسل کا کل بجٹ ساڑھے تیرہ کروڑ کا منظور کیا گیا ہے۔ اجلاس کی صدارت صوبائی سیکرٹری اطلاعات مومن آغا نے کی۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد علی بلوچ نے بجٹ پیش کیا اور گورننگ باڈی نے بجٹ کی پوری چھان پھٹک کی اور طویل بحث و مباحثہ کے بعد اسے منظور کر لیا گیا۔
لاہور آرٹس کونسل کے موجودہ بجٹ میں گزشتہ سال کی نسبت تقریباً ایک کروڑ کا اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ گزشتہ سال اس بجٹ کا حجم تقریباً ساڑھے بارہ کروڑ روپے تھا۔ نئے بجٹ میں گزشتہ سال کی نسبت ایک کروڑ روپے کی اضافی آمدنی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ گزشتہ سال دس کروڑ روپے کی کمائی ہوئی تھی جبکہ رواں مالی سال میں کمائی کا تخمینہ گیارہ کروڑ لگایا گیا ہے۔ جب الحمرا کی انتظامیہ سے استفسار کیا کہ یہ ایک کروڑ کی فاضل آمدنی کہاں سے حاصل ہو گی تو جواب ملا کہ بجلی اور فیول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے الحمرا کے اخراجات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ گزشتہ سال لاہور آرٹس کونسل کے تعاون سے جتنے پروگرام مفت کئے گئے تھے اس سال ان کی تعداد کم رکھی جائے گی یہ بھی ممکن ہے کہ ہال کے کرایوں اور ٹکٹ کی قیمت میں اضافے پر بھی غور کیا جائے۔
ہال کے کرائے میں تھوڑا بہت اضافہ تو قابل قبول ہے لیکن ڈرامہ ٹکٹوں کی قیمت میں اضافہ کرنے کا جواز نہیں ہے اس کا سبب یہ ہے کہ لاہور آرٹس کونسل کے قیام کا بنیادی مقصد لاہور میں ثقافت کو فروغ دیتا ہے بدقسمتی سے پنجاب آرٹس کونسل بھی موجود ہے لیکن صرف ایک مردِ بیمار کی وجہ سے وہ بھی صرف تنخواہیں وصول کرتی نظر آ رہی ہے۔ اب پرانے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی مدت پوری ہونے کے بعد امید ہے کوئی نیا ذمہ دار سربراہ مقرر کیا جائے گا جس کے بعد شاید پنجاب آرٹس کونسل بھی فعال ہو جائے کیونکہ لاہور کے علاوہ اس کی برانچیں مختلف شہروں میں بھی ہیں۔
چنانچہ الحمرا کو اپنا دائرہ عمل ثقافت کے فروغ تک محدود رکھنا چاہئے شاید یہی سبب ہے پنجاب حکومت اگرچہ زیادہ گرانٹ تو نہیں دیتی لیکن وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہے۔ لیکن حیرت انگیز بات ہے کہ لاہور آرٹس کونسل نے اپنے بنیادی مسائل بھی حل نہیں کئے ہیں اس سلسلہ میں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ لاہور آرٹس کونسل کے پاس قذافی سٹیڈیم میں کلچرل کمپلیکس بھی ہے جہاں ڈرامہ ہالوں، اوپن ائر تھیٹر کے علاوہ بہت خوبصورت پرماننٹ آرٹ گیلری ہے جس کی تزئین اور مرمت کا کام آجکل جاری ہے لیکن وہاں ایک بنیادی مسئلہ بہت پریشان کن ہے کلچرل کمپلیکس میں الگ عمارت کے طور پر پنجابی کلچرل انسٹی ٹیوٹ قائم ہے اور اس سے پیچھے پاکستان کرکٹ بورڈ کا دفتر بھی موجود ہے لیکن کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ پنجاب حکومت نے ان اداروں کیلئے سیوریج سسٹم کا اہتمام نہیں کیا ہے۔ آج کل بارشوں بلکہ موسلا دھار بارشوں کا موسم ہے اور جب پانی اکٹھا ہو جاتا ہے تو پھر الامان الحفیظ والا مضمون ہوتا ہے۔ سڑک پر کئی کئی فٹ پانی اکٹھا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے آمد و رفت میں بہت دشواری پیش آتی ہے۔ الحمرا کلچرل کمپلیکس اور پنجابی انسٹی ٹیوٹ کی بات چھوڑیے پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس تو وافر پیسہ موجود ہے اتنا زیادہ پیسہ موجود ہے کہ وہ بغیر کسی پلاننگ کے پاکستان پریمیر لیگ کی تیاری پر کروڑوں روپیہ ضائع کر دیتا ہے اور اسے کوئی پوچھتا بھی نہیں کہ اس نے اتنی بڑی رقم جان بوجھ کر کیوں ضائع کی۔
الحمرا کلچرل کمپلیکس کی پرماننٹ آرٹ گیلری کی تزئین و آرائش گیلری کی کیوریٹر تانیہ سہیل کر رہی ہے اور امید ہے کہ عید تک کام مکمل ہو جائے گا جس کے بعد پرماننٹ آرٹ گیلری ایک نئے انداز میں سامنے آئے گی اور آرٹ سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے کھول دی جائے گی۔ ویسے ایک دلچسپ حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے 2009ءمیں ترقیاتی امور کیلئے پی سی ون منظور ہو چکا ہے لیکن بعد میں کسی نے اعتراض کر دیا کہ لاہور میں آرٹ اور ثقافت کو ترقی دینے کا کیا فائدہ تو پھر پی سی ون داخل دفتر کر دیا گیا۔ موجودہ سیکرٹری اطلاعات مومن آغا ثقافت کی اہمیت بخوبی جانتے ہیں اس لئے انہیں چاہئے کہ نہ صرف پی سی ون کا داخل دفتر منصوبہ سرد خانے سے نکالیں بلکہ راوی کے قریب الحمرا ٹو کی بہت قیمتی زمین پڑی ہے اس سے پیشتر کہ اس پر کوئی زبردستی قبضہ کرے وہاں بھی تعمیر کا کام شروع کر دینا چاہئے۔