بشریٰ امیر
10 نبوی ہے اور ہجرت سے تین سال قبل رمضان المبارک کی بھی دس تاریخ ہے۔ اللہ کے پیارے حبیب غمزدہ اور پریشان ہیں۔ زینبؓ، رقیہؓ، اُم کلثومؓ اور ننھی فاطمہؓ دکھ سے نڈھال ہیں۔ آج کے دن رسول کریم کی غمگسار زو جہ محترمہ، اُمت میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی، حضور اکرم کے بچوں کی والدہ ماجدہ اور تمام مومنوں کی روحانی اماں جان حضرت خدیجہؓاس دارِ فانی سے رحلت فرما گئی تھیں۔ حضرت محمد کریم کا تو ابھی پہلا غم ہی ہلکا نہ ہُوا تھا، دو ماہ پہلے ہی تو چچا ابو طالب داغ مفارقت دے گئے تھے وہ چچا اپنے عظیم بھتیجے کے دست و بازو تھے، ان کی وفات کے بعد زوجہ محترمہ فوت ہو گئیں تو اس سال کو غم کا سال قرار دے دیا گیا۔
حضرت خدیجہؓ جن کو اعلیٰ احترام اور مقام میرے ربّ نے دیا، انہیں ”ماں“ کا عظیم الشان درجہ دیا جو عورت کے تمام مقامات سے اونچا ہے۔ سورہ¿ احزاب میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”میرے نبی کی بیویاں تمام مومنوں کی مائیں ہیں“ اس لحاظ سے حضرت خدیجہؓ اُمت محمدیہ کی پہلی ماں ہیں۔ قبرستان معلیّٰ وہ مقام ہے جو مکہ اور منیٰ و عرفات کے درمیان واقع ہے جہاں حضرت خدیجہؓ استراحت فرما رہی ہیں۔ روضہ کے سامنے کھڑے میرے ہاتھ دعا کے لئے اٹھے اور آنکھیں بند کئے میں سیرت نبوی میں گم ہو گئی۔
حضرت خدیجہؓ کا تعلق قریش کے معزز ترین خاندان سے تھا۔ وہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھیں اور کردار کے تو کیا کہنے ”طاہرہ“ اور پاکیزہ کا لقب حاصل تھا۔ حضرت خدیجہؓ کی پہلی شادی عتیق نامی شخص سے ہوئی جن سے ایک بیٹی پیدا ہوئی اور جب عتیق فوت ہو گئے تو اس کے بعد ابوہالہ سے شادی ہوئی جو تمیم قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جس سے دو لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ پھر وہ بھی فوت ہو گئے۔ حضرت خدیجہؓ دولت و ثروت میں بہت ممتاز خاتون تھیں۔ وہ بچوں کی کفالت کے لئے تجارت کرتی تھیں۔ ان کا مال مکہ سے شام اور شام سے مکہ آتا جاتا تھا۔ مال تجارت لانے لے جانے کے لئے انہوں نے کئی غلام رکھے تھے، ان میں سے ایک غلام میسرہ بھی تھا۔
حضرت خدیجہؓ نے جب رسول کریم کی صفات سُنیں، ایک ایسے شخص کی صفات جو امانت و دیانت میں بے مثال، نرم خو، صادق و امین اور بلند کردار ہے تو آپ کو پیغام بھجوایا اور کہا: ”میں آپ کو اس سے دگنی تنخواہ دوں گی جو کسی دوسرے کو دیتی ہوں اور کہا کہ آپ میرا مال لے کر شام جائیں۔“ آپ نے اس بات کا تذکرہ اپنے چچا ابو طالب سے کیا انہوں نے کہا: ”میرے بھتیجے! یہ روزی ہے جسے اللہ نے تمہارے لئے بھیجا ہے۔“
چنانچہ رسول کریم نے حضرت خدیجہؓ کی پیشکش منظور فرما لی۔ حضرت خدیجہؓ نے اپنے غلام میسرہ کو آپ کے ساتھ بھیج دیا۔ آپ نے مال تجارت بیچا، دگنا منافع حاصل کر کے مکہ واپس لوٹے تو میسرہ نے حضرت خدیجہؓ کونبی کریم کے اخلاقِ حسنہ، صدق گوئی اور امانت داری سے مال فروخت کرنے کے واقعات بتائے۔ حضرت خدیجہؓکے دل میں میسرہ کی بتائی ہوئی باتیں گھر کر گئیں۔ اس کے بعد حضرت خدیجہؓ نے اپنی سہیلی نفیسہ سے اپنے دل کی بات کہی، نفیسہ آپ کے پاس گئیں اور سادہ لفظوں میں آپ کو حضرت خدیجہ ؓ کی طرف سے شادی کی پیشکش کی ۔ آپ نے اس پیشکش کو قبول کر لیا اور اپنے چچاﺅں ابو طالب اور حضرت حمزہ سے اس پیغام کا ذکر کیا تو وہ حضرت خدیجہؓ کے چچا عمرو بن اسد سے ملے۔ حضرت ابو طالبؓ نے خطبہ نکاح پڑھا اور بیس اونٹنی بطور حق مہر مقرر کیا۔ حضرت خدیجہ سے شادی کے وقت آپ کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجہؓ کی عمر 40 سال تھی۔ آپ اپنی زوجہ محترمہ کے یتیم بچوں کو اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھاتے اور ان کو سگے باپ سے بھی زیادہ محبت دیتے۔
حضرت محمدکی تمام اولاد حضرت خدیجہؓ کے بطن سے ہے، سوائے ایک بیٹے ابراہیمؓ کے جو حضرت ماریہ قبطیہ سے تھے۔ اللہ نے حضرت خدیجہؓ کو چار بیٹیاں دیں۔ حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت اُم کلثومؓ اور سب سے چھوٹی حضرت فاطمہؓ ؓ تھیں۔ ایک بیٹا قاسمؓ اور دوسرا عبداللہ ؓ تھا جنہیں طاہر و طیب کے لقب سے نوازا گیا تھا۔ تمام بیٹے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے۔
حضرت خدیجہؓ کو حضور کریمکے بچوں کی والدہ ہونے کی وجہ سے شرف حاصل تھا اور آپ دنیا کی چار باکمال عورتوں میں بھی شمار ہوتی ہیں جن کا تذکرہ اللہ کے رسول نے اپنے فرمان میں کیا ہے۔ دنیا کی چار باکمال اور افضل ترین عورتیں حضرت خدیجہؓ، فاطمہؓ رسول اللہ کی بیٹی، فرعون کی بیوی آسیہؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کی والدہ حضرت مریم ؑ بنت عمران ہیں۔ حضرت خدیجہؓ کے اعزاز و اکرام کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے، کہ جبریلؑ آپ کے پاس آئے اور کہا اے اللہ کے رسول! خدیجہ ایک برتن لئے آ رہی ہیں جس میں سالن، کھانا اور پانی ہے جب وہ آئیں تو انہیں ان کے ربّ کا اور میرا سلام کہیں اور جنت میں ایسے محل کی بشارت دیں جو کھوکھلے موتی سے بنا ہوا ہے۔ اس محل میں کوئی شور و غل نہ ہو گا، نہ کسی قسم کی تکلیف ہو گی۔
پیر کے دن رمضان المبارک کی 21ویں تاریخ کو جبریل امین ؑ غارِ حرا میں آئے، آپ عبادت میں مشغول تھے، یہ پہلی وحی تھی۔ رسول کریم کو جبریلؑ نے تین دفعہ زور سے پکڑ کر دبایا اور کہا ”اقرا“ پڑھئے، اس سے آپ خوفزدہ ہو گئے۔ خوف سے لرزتے ہوئے حضرت خدیجہؓکے پاس آئے اور کہا مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ حضرت خدیجہؓ کہنے لگیں: ”ہرگز نہیں! اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو رشتے ناطے جوڑتے ہیں، ہمیشہ سچ بولتے ہیں، کمزور لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، فقیروں اور ناداروں کو کما کر دیتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں، حق کا ساتھ دیتے ہیں۔
پھر غمگسار بیوی نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو بوڑھے اور نابینا تھے۔ تورات کے عالم تھے، انہوں نے جب سارا واقعہ رسول کریم کی زبان سے سُنا تو بے اختیار کہہ اُٹھے، محمد کے پاس تو وہی فرشتہ آیا ہے جو حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آیا کرتا تھا، یہ نبی ہیں، اگر میں زندہ رہا تو ضرور ان کی مدد کروں گا۔
حضرت خدیجہؓ سب سے پہلے مسلمان ہوئیں، اپنے شوہر نامدار کی نبوت و رسالت کی سب سے پہلے تصدیق کی۔ رسول کریم کی یہ ایسی غمگسار اور ہمت بندھانے والی زوجہ تھیں، جب کفار آپ کو ستایا کرتے اور بدسلوکی کیا کرتے تو بھرپور ساتھ دینے والی تھیں۔ اپنا سارا مال و دولت اللہ کے نبی پر نچھاور کر دیا تھا، اسی لئے حضور جب بھی مدینہ آتے تو اکثر حضرت خدیجہؓ کا ذکر کیا کرتے۔ ان کی سہیلیوں کی عزت و احترام کرتے۔ حضرت عائشہؓ کو اپنی موجودگی میں ان کا کثرت کے ساتھ تذکرہ اچھا نہ لگا تو حضور نے جواب دیا: عائشہؓ تمہیں کیا پتہ کہ خدیجہؓ نے مجھے کس قدر سکون پہنچایا۔ جب اسلام کی وجہ سے لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے وہ تصدیق کر رہی تھیں، مجھے تسلیاں دے رہی تھیں، ان کا مال میرے اور مسلمانوں کے کام آیا اور میری اولاد بھی انہی میں سے ہے۔یہ تھیں مومنوں کی ماں، اعلیٰ اخلاق و کردار والی حضور کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ جن کا پاکیزہ کردار و اخلاق تمام مسلم بہنوں کے لئے جنت کی بشارت ہے۔ (آمین)