ہر انسان کی زندگی میں ایک موقع آتا ہے وہ اسے جان لے۔ حکمت اور جرات، دلیری اور دانائی کے ساتھ اسے استعمال کر لے تو سرخروئی اس کا نصیب بنتی ہے مگر اکثر یہ موقع ضائع ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر قدیر خان ایسے انسان ہیں کہ دوبار یہ موقع ان کی زندگی میں آیا ہے۔ ایٹم بم بنا کے انہوں نے قوم کو دے دیا ہے۔ ایٹم بم کی توہین کرنے کے باوجود وہ ہمارے لئے ایک نعمت ہے۔ اس حال میں بھی پاکستان عالم اسلام کا لیڈر ملک ہے پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ مل کر امریکہ بھارت اسرائیل اور یورپ پاکستان کو برباد کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ ڈاکٹر قدیر خان کی قربانی اور جانفشانی کو تاریخ نہیں بھلائے گی اور عوام بھی یاد رکھیں گے۔ وہ ہمیشہ کے لئے محسن پاکستان ہیں۔ یہ خطاب انہیں آبروئے صحافت ڈاکٹر مجید نظامی نے دیا ہے۔ جنہیں ڈاکٹر صاحب پنجابی کہتے ہیں لیکن وہی انہیں دھماکے سے پہلے نواز شریف پی ایم کے گھر لیکر گئے تھے اور جو اختلاف تھا ان دو بڑے آدمیوں میں وہ دور ہو گیا اوردھماکہ ہوا۔انہوں نے ہی محترمہ فاطمہ جناح کو مادر ملت کا خطاب دیا تھا۔ ایک بہادر اور بامقصد زندگی گزارنے والے انسان کی زبان سے جو بات ادا ہوتی ہے اسے قبول عام ملتا ہے۔ مادر ملت اور محسن پاکستان اب لوح دل و جاں پر لکھے ہوئے نام ہیں۔
جب محسن پاکستان نظربند تھے تو بڑی مدت تک نوائے وقت میں اشتہار نما اعلان روزانہ شائع ہوتا تھا۔ جس میں ڈاکٹر قدیر خان کی نظربندی کے دن گنے جاتے تھے۔ پھر وہ دن آ گیا کہ وہ ہمارے درمیان آ گئے۔ رہائی کے بعد ڈاکٹر قدیر خان نے ایک دوسرے اخبار میں کالم لکھنا شروع کر دیا۔ کاش وہ نوائے وقت میں لکھتے۔ انہیں بہت عزت اور مقام ملتا اور وہ ”چیز“ بھی ملتی جس کے لئے وہ دوسرے اخبار میں گئے۔ میں صرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ دل کی دولت ہر مال دولت سے بڑی چیز ہے۔ ایٹم بم انہوں نے بنایا۔ یہ بہت بڑا کارنامہ بلکہ معرکہ آرائی ہے۔ بہت کم تنخواہ پر یہ کام کر دکھایا ار اس کے آگے میں کچھ نہیں کہوں گا۔ آئی کیو خان لیبارٹری میں ان کے بہت سے ساتھی بھی تھے۔ انہوں نے کبھی ان کا ذکر نہ کیا۔ کبھی ان کا ذکر ہونے بھی نہ دیا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کوئی کم ایٹمی سائنسدان نہیں ہیں۔ نواز شریف ایٹمی دھماکوں کے وقت ان کو ساتھ لے گئے تھے۔ اب وہ تھرکول سے بجلی بنانے کے لئے دہائی دے رہے ہیں۔ یہ کام ڈاکٹر قدیر بھی کر سکتے تھے مگر ہمارے دشمنوں نے انہیں اس قابل ہی نہ رہنے دیا۔ ایٹمی ٹیکنالوجی کے پھیلاﺅ کا الزام ایک بہانہ تھا۔ جنرل مشرف اور اس کے ساتھی جرنیلوں نے امریکہ کے ڈر سے یہ الزام ڈاکٹر قدیر کے سر باندھ دیا ورنہ امریکہ اور بھارت اس بات سے ڈرتے تھے کہ پاکستان سول ٹیکنالوجی میں بہت آگے نکل جائے گا۔
اب ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو اللہ محفوظ رکھے اور انہیں وہ کام کرنے کی توفیق دے اور انہیں اجازت ملے کہ پاکستان عسکری معاملات کے علاوہ معاشی صنعت زرعی میدان میں بھی کامرانیوں اور حیرانیوں کے جھنڈے گاڑے اور ہم پریشانیوں سے محفوظ رہیں۔ کسی قوم کے وقار کے لئے عسکری طاقت کے ساتھ ساتھ معاشی طاقت بھی ضروری ہے۔
جنرل مشرف پر دباﺅ آیا اور ہمارے حکمران (فوجی اور سیاسی) اپنے اقتدار کے حوالے سے ذرا سا دباﺅ برداشت نہیں کرتے۔ جنرل مشرف نے ڈاکٹر قدیر خاں کو بلایا۔ انہیں سب الزام اپنے سر لینے کا حکم دیا اور قوم سے معافی مانگنے کی ہدایت بھی جاری کی۔ قوم سے معافی کا کیا مطلب ہے۔ یہ معافی تو امریکہ اور بھارت سے مانگنے کا طریقہ تھا۔ یہ باتیں غیر ضروری ہیں کہ اس حوالے پاکستان کو خطرہ تھا۔ پاکستان کو خطروں سے بچانے کے لئے بھٹو صاحب اور ڈاکٹر قدیر نے ایٹم بم بنایا تھا اور نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کر دئیے۔ یہ تین کردار اس حوالے سے قابل ذکر ہیں بلکہ ناقابل فراموش ہیں۔ امریکہ اور بھارت سمیت کون سا ملک ہے جس نے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حوالے سے گڑبڑ نہیں کی۔ میرے خیال میں یہ ڈاکٹر قدیر کا خیال خام تھا کہ وہ ملک بچانے کے لئے معافی مانگیں۔ اس معافی کے بعد بھی ہمارے حکمران دست بستہ امریکہ اور بھارت کے سامنے کھڑے ہیں اور خدانخواستہ پاکستان خطرے میں ہے کی سرگوشیاں شرگوشیاں بنتی جا رہی ہیں۔
اس طرح کا واقعہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے ساتھ بھی پیش آیا تھا۔ وہ ڈٹ گئے اور انہوں نے استعفیٰ دینے سے انکار کیا۔ بزدلی اور بخیلی آدمی کی شخصیت کی دشمن ہیں۔ جسٹس صاحب کو تو لوگ جانتے بھی نہ تھے۔ ان کے لئے سڑکوں پر نکل آئے۔ وکلا کے بعد سول سوسائٹی بھی مظاہروں میں شریک ہو گئی ہر طرف یہ نعرہ گونجنے لگا۔ چیف تیرے جانثار بے شمار بے شمار۔ پھر جنرل مشرف کے لئے اپنے آپ کو بچانا مشکل ہو گیا۔ آج چیف جسٹس عدالت میں بیٹھے ہیں اور جنرل مشرف عدالتوں میں دھکے کھاتے پھرتے ہیںاور گھر میں قید ہیں۔ جرات انکار کے ساتھ ساتھ جرات اقرار بھی ضروری ہے۔ لوگ چیف جسٹس سے بہت امیدیں لگائے ہوئے تھے۔ ان کی امید ٹوٹی نہیں ہے مگر وہ مایوس ہیں۔
اگر ڈاکٹر قدیر تب کسی دھوکے میں نہ آتے اور جرات انکار سے کام لیتے۔ لوگ جو ڈاکٹر قدیر کے لئے جان و دل سے نثار تھے۔ ایک سچ مچ کا انقلاب لے آتے۔ ایک نیا زمانہ شروع ہوتا۔ یہ کام ایٹم بم بنانے سے بھی بڑا کام ہوتا۔ ڈاکٹر قدیر کے ہاتھ سے یہ بیش بہا لمحہ نکل گیا اور اب ان کے ہاتھ خالی ہیں۔ انہوں نے ایک بیش بہا سنہری موقع ضائع کر دیا۔ انہیں قسمت اور تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ان کی کوئی معافی کسی کام نہیں آئے گی۔ ان کی پہلی معافی بھی کسی کام نہیں آئی۔ میں تو ان کے سیاست میں آنے کو بھی ٹھیک نہیں سمجھتا۔ وہ خاموشی سے بیٹھ جاتے تو زیادہ مبارک ہوتا۔ مبارک کا لفظ شاید انہیں اچھا نہیں لگتا کہ انہیں ڈاکٹر ثمر مبارک مند یاد آ جاتا ہے۔ اپنے ساتھیوں کی قدر کرنا آدمی کو آنا چاہئے۔ انہوں نے سیاسی پارٹی بنائی جو فیل ہو گئی وہ عمران خان سے بڑے آدمی ہیں تو پھر وہ سوچیں کہ اب ان میں کیا کمی رہ گئی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں صدر بنایا جائے اب تو ان کو صدر بنائے جانے کی باتیں بھی ایک مذاق بن کے رہ گئی ہیں۔ جو کچھ امریکہ اور بھارت نے جنرل مشرف کی طرف سے ان کے ساتھ کر دیا تو یہ مطالبہ ان کے خلاف ایک مظاہرہ لگتا ہے۔ وہ صدر مملکت سے بہت بلند و بالا ہو سکتے تھے۔ لوگ تو ان کے گھائل ہیں مگر وہ خود اپنی راہ میں حائل ہوئے۔ امریکہ نے بھارتی ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالکلام کے بھارت کا صدر بن جانے پر اعتراض نہ کیا مگر پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اپنے گھر میں نظربند کروا دیا۔ جنرل مشرف اپنے گھر میں قید ہے اور یہ امریکہ کی اجازت سے ممکن ہوا ہے۔ ڈاکٹر قدیر خان کے دل میں صدر پاکستان ہونے کی خواہش مرتی کیوں نہیں؟ خدا کی قسم محسن پاکستان ہونا صدر پاکستان ہونے سے کروڑ درجے بیش بہا منصب ہے۔ صدر پاکستان تو ہمارے ملک میں کبھی باعزت نہیں ہوئے۔ مجید نظامی نے ابا جی مرحوم اور شریف برادران کی صدر بننے کی پیشکش شکریہ کے بعد بصدمعذرت رد کر دی کہ مجھے مدیر کی کرسی زیادہ عزیز ہے۔