فیصل آباد (احمد جمال نظامی کی خصوصی رپورٹ) سپریم کورٹ نے چاروں صوبائی حکومتوں کو اس سال ماہ ستمبر میں بلدیاتی الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے لیکن دونوں بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ کے حکمران، ذہنی طور پر ابھی اپنے صوبوں میں بلدیاتی الیکشن کرانے کیلئے آمادہ نظر نہیں آتے۔ پنجاب کے وزیر بلدیات جو صوبے کے وزیر قانون بھی ہیں وہ گذشتہ دور میں بھی صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی نوید سناتے رہے لیکن گذشتہ دور میں پنجاب حکومت اس بات کا ہی فیصلہ نہیں کر سکی کہ صوبے میں بلدیاتی ڈھانچہ کیا ہو گا۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ایک دلچسپ حقیقت اس طرح ابھر کر سامنے آتی ہے کہ ملک میں کسی بھی سیاسی حکومت نے آج تک بلدیاتی انتخابات کا کوئی ڈھانچہ نہیں بنایا اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت نے اپنے دور حکومت میں بلدیاتی اداروں کو کوئی اہمیت دی ہے اور اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ یہ حکومتیں بلدیاتی نظام کو وفاق اور صوبوں کے حکومتی نظام کے متوازی نظام تصور کر کے اپنے اپنے دور حکومت میں بلدیاتی ادارے قائم کرنے سے گریز کرتی رہیں۔ اب منتخب جمہوری نظام سے وابستہ جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ اور ارکان صوبائی اسمبلی سارے ترقیاتی فنڈز خود استعمال کرنے کے عادی ہو چکے ہیں بلکہ اکثر سیاست دان محض اس لئے صوبائی اور قومی کے الیکشن لڑتے ہیں کہ ان کی کامیابی کی صورت میں انہیں اربوں کروڑوں روپے کے ترقیاتی کاموں کے فنڈز ملیں گے جس سے وہ اپنے اپنے حلقہ انتخاب کے عوام کی حالت سنواریں یا نہ سنواریں، ان کے اپنے خاندانوں کے مالی حالات لازماً سنور جائیں گے۔ بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی میں ترقیاتی فنڈز ارکان پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کے لئے انتہائی پرکشش ہوتے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کی یہ اہمیت ہے 2005ءکے بلدیاتی الیکشن میں فیصل آباد کے ایک رکن قومی اسمبلی کرنل(ر) غلام رسول ساہی کو اس وقت کی پنجاب کی حکمران پارٹی مسلم لیگ (ق) نے اپنے حمایت یافتہ امیدوار ضلع ناظم فیصل آباد کے طور پر میدان میں اتارا تو ان کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے موقع پر ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر نے ان سے پوچھا وہ قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر ضلع ناظم کیوں بننا چاہتے ہیں تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کیونکہ اس صورت میں زیادہ فنڈز ان کی دسترس میں ہوں گے۔ جنرل ایوب خان نے سب سے پہلے یونین کونسلیں بنائیں اور بلدیاتی اداروں کے ارکان جنہیں اس زمانے میں بنیادی جمہوریتوں کے نظام کی وجہ سے بی ڈی ممبر کہا جاتا تھا۔ ان کے ووٹوں سے مادرملت محترمہ فاطمہ جناح تک کو شکست سے دوچار کر دیا تھا۔ گذشتہ دور میں یہ فیصلہ نہیں ہو سکا تھا وہ 1979ءکے بلدیاتی آرڈیننس کو اسی حالت میں بلدیاتی انتخابات کے لئے اپنا لے یا پنجاب اسمبلی کے ذریعے اس کی ہیت تبدیل کرنے کی کوئی مساعی بھی کرے۔ اب فیصلہ کیا ہے اس نظام میں بعض تبدیلیاں کی جائیں گی تاکہ میونسپل کارپوریشنوں کے لارڈ میئرز کے ساتھ نائب لارڈ میئرز اور ضلع کونسلوں اور ٹا¶ن کمیٹیوں کے لئے چیئرمینوں کے ساتھ نائب چیئرمینوں کو بھی پہلے سے زیادہ اختیارات دیئے جائیں گے لیکن اس کے باوجود ان دونوں صوبوں کی حکومتیں چھ ماہ کی مزید مدت چاہتی ہیں تاکہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے پہلے یونین کونسلوں، ٹا¶ن کمیٹیوں اور سٹی ڈسٹرکٹس میں، ٹا¶ن کمیٹیوں اور خود ضلعی اور شہری حلقوں کی نئی حد بندیوں کا سلسلہ مکمل کرا سکے۔ اگر یہ حکومتیں متفقہ طور پر سپریم کورٹ کو ماہ اکتوبر کی کسی تاریخ کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی یقین د ہانی کرا دیں تو 22 جولائی کو سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں اس تجویز کو اپنے حکم کا حصہ بنا سکتی ہے۔ بہرحال سپریم کورٹ نے کان مروڑے ہیں تو یہ امید ضرور بندھ گئی ہے رواں سال میں ملک میں بلدیاتی انتخابات لازمی ہو جائیں گے۔