آج کے اس مشینی دور میںزندگی اس قدر مصروف ہوگئی ہے اور مہنگائی اس قدر زیادہ ہوگئی ہے کہ آدمی سیرو تفریح جیسے شوق کے بارے میں صرف سوچ ہی سکتاہے میں بھی کئی برسوں سے سیر کا ارادہ کررہا تھا مگر سیر کیلئے کہیں جا نہ سکا۔ آخرکارپچھلے ہفتے فیملی کے پرزور اصرار پر خانسپور ایوبیہ کی سیر کا پروگرام بن ہی گیا۔ ایک رات اسلام آباد میں قیام کرنے کے بعد اگلی صبح خانسپور کیلئے روانہ ہوا تو سڑک کے اردگرد کے دلکش مناظر دیکھ کر حیران رہ گیا خصوصاً جب گاڑی مری سے ایبٹ آباد جانے والی سڑک پر پہنچی تو قدرتی مناظر نے تو مجھے مسحور ہی کر دیا۔ میں خود کو ایک نئی دنیا میں محسوس کر رہا تھا ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی حسین خواب دیکھ رہا ہوں کیونکہ اس قدر خوبصورت مناظر میری آنکھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ گاڑی جب ایوبیہ کے قریب پہنچی تو سڑک کے کنارے نہ ہونے کی وجہ سے کچھ پریشانی ہوئی کیونکہ سڑک کے کنارے کے ساتھ ہی ہزاروں فٹ گہری کھائیاں بھی تھیں لیکن قدرتی مناظر اس قدر حسین اور دلکش تھے کہ میں یہ بھول ہی گیا کہ سڑک کے کنارے نہیں ہیں اور ساتھ ہزاروں فٹ گہری کھائیاں ہیں۔ ابھی چند منٹ ہی میں نے ان حسین مناظر کا نظارہ کیا کہ ڈرائیور نے گاڑی روک لی میں نے شیشے سے باہر دیکھا تو سڑک پر لوگ جمع تھے ایک ریسکیو کی گاڑی بھی کھڑی تھی میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے اس نے کہا کہ ایک کار ابھی ابھی کھائی میں گری ہے اور ریسکیو والے اسے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں کھائی اتنی گہری تھی کہ مجھے وہ کار نظر نہیں آئی۔ خدا کرے کہ اس کار کے مسافر بچ گئے ہوں ہماری گاڑی ایبٹ آباد روڈ سے خانسپور پہنچ گئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ مری سے ایبٹ آباد جانے والی سڑک تنگ ہے اور اسکے کنارے نہیں ہیں اس وجہ سے کار کھائی میں گری لیکن جب ہماری گاڑی ایوبیہ سے خانسپور کی طرف روانہ ہوئی تو میں دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا کہ یہ سڑک تو ایبٹ آباد روڈ سے بھی تنگ ہے جس پر بمشکل ایک گاڑی چل سکتی ہے اور اسکے کنارے بھی نہیں ہیں اور اس سڑک کے اردگرد بھی ہزاروں فٹ گہری کھائیاں ہیں اور پھر سڑک پر انتہائی خطرناک موڑ ہیں۔ میں جب گاڑی سے باہر سرسبز و شاداب پہاڑیوں اور دیار، پڑتل اور چیل کے بلند و بالا درخت دیکھتا تو طبیعت خوش ہو جاتی اور ایسے گمان ہوتا کہ کسی پریوں دنیا میں پہنچ گیا ہوں مگر جب انتہائی تنگ بغیر کناروں کے سڑک اور ہزاروں فٹ گہری کھائیاں دیکھتا تو دل دھک دھک کرنے لگتا۔ میں اس طرح خوشی اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں خانسپور پہنچ گیا۔ گاڑی سے اترا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ لوگوں نے سویٹر پہن رکھے ہیں اور گرم شالیں لے رکھی ہیں۔ میں یہ منظردیکھ کر حیران ہوا کہ جولائی کے مہینے میں ان لوگوں نے سویٹر اور گرم کپڑے پہن رکھے ہیں جب اپنی رہائش گاہ پر پہنچا تو مجھے بھی سردی محسوس ہونے لگی میرے پاس سویٹر یا گرم کپڑے نہیں تھے اس لئے میں نے تین دن سردی میں ہی گزارے لیکن یہ سردی زیادہ تکلیف دہ نہیں تھی دن کے وقت اگر دھوپ ہوتی تو موسم بہت خوشگوار ہو جاتا جب بارش ہوتی تو سردی ہو جاتی خانسپور ایوبیہ صوبہ خیبر پی کے کی چھوٹی سی آبادی ہے یہاں کے لوگ بہت خوبصورت محنتی اور جفاکش ہیں جن کا دارومدار زیادہ تر سیاحت کے کاروبار پر ہے۔ گرمیوں میں ان علاقوں میں سیاحوں کے آنے سے ان کے کاروبار چمک جاتے ہیں اور 6 ماہ میں وہ اتنا کما لیتے ہیں کہ سردیوں کے چھ ماہ ان کی گزر بسر ہو جاتی ہے۔ یہ لوگ انتہائی نامساعد حالات میں بھی بہت خوش ہیں۔ مجھے اس بات کا اندازہ اپنے دو ہمسایوںکے ایک ڈائیلاگ سے ہوا جس میں ایک لڑکی اپنے ہمسائے ‘جس نے کتے رکھے ہوئے تھے‘ سے کہہ رہی تھی کہ تم استری مانگ کر لے گئے تھے اس کا آئرن تم نے جلا دیا ہے اسکے ساتھ کپڑے استری کرتے رہے ہو یا کتے استری کرتے رہے ہو۔
میں نے تین دن خانسپور میں ہی گزارے اسکی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہاں کا موسم اور قدرتی نظارے اس قدر خوشگوار تھے کہ یہاں سے نکلنے کو جی ہی نہیں چاہا دوسری وجہ یہ تھی کہ جب بھی خانسپور سے باہر نکلنے کا ارادہ کرتا تو میرے ذہن میں بغیر کناروں کے تنگ سڑک، خطرناک موڑ، ہزاروں فٹ گہری کھائیاں اور راستے میں گہری کھائی میں گری ہوئی کار کا نقشہ ابھر آتا۔ خیر خراب سڑک ایک طرف، میں نے خانسپور میں جو تین دن گزارے اوران تین دنوں میں میںنے جو قدرت کے شاہکار اور حسین مناظر دیکھے ہیں وہ میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ امریکن رائٹر ہیلن کیلر نے اپنی مقبول کہانی ”Three days to see“ میں دنیا کی خوبصورت چیزوں کا جو نقشہ کھینچا ہے اسکی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے میرے خیال میں اگر انہیں خانسپور، ایوبیہ سمیت پاکستان کے دیگر شمالی علاقہ جات کے بارے میں آگاہی ہوتی تو وہ شائد اپنی پوری کہانی ان علاقوں پر ہی لکھ دیتیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو خانسپور، ایوبیہ سمیت متعدد خوبصورت علاقے عطا فرما دیئے ہیں اب سڑکیں بنانا تو ہمارا اپنا کام ہے اگر موٹر وے سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی جا سکتی ہے تو بنی ہوئی سڑک کشادہ بھی کی جا سکتی ہے۔ یہ ہمارے حکمرانوں کا فرض ہے کہ ان خوبصورت علاقوں تک محفوظ راستے بنا کر قدرت کے ان خوبصورت اور دلکش مناظر کو عوام کیلئے مزید حسین بنادیاجائے۔