صحافت و سیاست کے ڈینگی

ہم کچھ اس طرح سے’’ امپورٹیڈز دہ‘‘ ہو چکے ہیں کہ معیاری سے معیاری ملکی اشیاء سے منہ پھیر کرناقص اور غیر معیار اشیاء محض غیر ملکی مہر دیکھ کر ہی گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ یہ حشر ہمارے صنعتکار، تاجر حضرات کے اسلام کے زریں تجارتی اصولوں سے روگردانی اور ان قوتوں کے ہمارے اصولوں کے اپنانے سے ہوا المیہ تو یہ ہے سبق ہم پھر بھی نہیں سیکھ رہے۔
اس سے بھی خطر ناک نظریاتی احساس کمتری کا شکار ہونا ہے کہ امپورٹیڈ نظریات بلکہ اب مکمل امپورٹیڈ لیڈرز کے پیکج بھی درآمد ہونے لگے ہیں، گزشتہ دور آمریت میں تو امپورٹیڈ وزیر اعظم بھی ناک بھویں چڑھاتے کہ ان کا تو شناختی کارڈ بھی قومی نہیں اور غیروں کا ایجنڈا لیکر آیا ہے کہ کوستے کوستے ہم ’’ ہنڈایا‘‘
من حیث القوم ہمارے نفسیاتی دبائو کا یہ عالم ہے کہ ڈینگی اور مختلف خطر ناک بیماریوں کے پھیلنے والے وائرس بھی ہم اپنے دشمنوں کی حال قرار دیکر خوامخواہ ان کی بالا دستی تسلیم کرتے ہیں ہم یہ قطعی نہیں سوچتے آلودگی گندے پانی کے جوہڑ ناقص غذائی اشیاء وغیرہ تو اپنا کیا دھرا ہے۔ ان بیماریوں کے وائرس کے پھیلائو کی سازش کا اقرار بھی کیا جا سکتا ہے اور انکار بھی ممکن ہے، جو فکری اور نظریاتی مہلک وائرس درآمد ہو رہے ہیں ان سے سرخوانحراف نہیں کیا جا سکتا ۔
مملکت کے تمام ستونوں کے خلاف ایسے خطرناک وائرس امپورٹ ہو رہیہیں کبھی بوگس اسمبلیاں قرار دیکر جمہوریت کی لوٹ کا سامان تو کبھی عدلیہ جیسے اہم ستون کے خلاف ایسے وائرس اپنی یلغار جاری رکھے اپنے قومی اداروں سے اعتماد ختم کرنے کا وائرس تیزی سے پھیلایا جا رہا ہے۔ بلکہ اس وائرس کا اصل معالج تو میڈیا تھا جس نے اس سے قوم کی حفاظت کرنا تھی یہ وہ ستون ہے جو قوم کی آنکھ اور دکان کی حیثیت رکھتا ہے سارے ستون اسی کے سہارے قائم ہیں۔
چند کالموں کی اشاعت اور لے دے کر ایک دو چینلوں میں شرکت کی بناء پر بننے والے عطائی صحافی خاص طور پر مکھی پہ مکھی مارتے ہوئے پورے نظام کیلئے خطرہ بن رہے ہیں۔
مثلاً آنکھیں بند کر کے لکھتے جائو حکومت کو خود اپنے اقدامات سے خطرہ ہے حکومت کی اچھی کارکردگی کی تعریف کرنے والے کو درباری سرکاری صحافی کہہ مرعوب کئے رکھنے اور اس کا یہ اثر ہوا ہے کہ اچھے خاصے مضبوط کردار و عمل کے صحافی بھی حکومت کی تعریف کرنے سے پہلے چند تبرے حکومت کی نذر ضرور کریں گے کہ وہ غیر جانبدار ہیں۔
میڈیا یاد رکھے یہ قوم امن کی آشا اور فوج کے خلاف نفرت کے اوچھے حربوں کا شکار نہیں ہوئی اور الٹا خود آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا تو اس طرح اپنا نقصان خود کر رہا ہے۔ قوم علامہ اقبال جیسے صاحب بصیرت کی شیدائی ہے جسے جلوہ افرنگ خیرہ نہیں کر سکتا اور اس کو ان سے یہ درس ملا ہے کہ …؎
نگاہ وہ نہیں جو سرخ و زرد پہچانے
نگاہ وہ ہے جو محتاج مہر و ماہ نہیں
(اقبالؒ)
جناب ڈاکٹر مجید نظامی صاحب اپنے نظریاتی تربیتی اداروں میں صحافت کو بھی شامل فرمائیں کہ نوائے وقت نے ایک بڑی کھیپ دانشور صحافیوں اور کالم نویسوں کی قوم کو دی ہے۔
خدارا وہ اس اہم ستون کی حفاظت اور اعتماد کیلئے اپنا کردار ادا کریں اور اسے بچوں کو کھیل بنانے والوں سے بچائیں کہ یہی آپ کی دردمندی اور حب الوطنی کا تقاضہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن