علّامہ طاہر اُلقادری نے اپنی تازہ ترین پریس کانفرنس میں وزیرِاعظم میاں نواز شریف کو چیلنج کیا ہے کہ ’’وہ میرے پیش کردہ 20 نکات پر مجھ سے مناظرہ کر لیں اور ثابت کریں کہ وہ مُلک چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں یا نہیں؟‘‘ میاں صاحب نے تو اِس چیلنج کا جواب نہیں دِیا لیکن مسلم لیگ (ن) کے تین وفاقی اور ایک صوبائی وزیر نے جواب آں غزل کے طور پر علّامہ صاحب کی خدمت میںاپنی طرف سے 6 نکات پیش کر دیئے ہیں۔ طاہر اُلقادری صاحب کو مخاطب کرتے ہُوئے انہوں نے کہا کہ ’’1۔ مناظرے کی اصل جگہ پارلیمنٹ ہے، جِس کے آپ رکُن نہیں ہے 2۔ آپ شُعبدہ بازی چھوڑ دیں3۔ وزیرِ اعظم صاحب آپ سے مناظرہ کیوں کریں؟4۔ مناظرے سے پہلے آپ اپنے ماضی کے اعمال کا حساب دیں5۔ آپ کو تو جنرل پرویز مُشرّف نے 2002 ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کا رُکن منتخب کرایا تھا اور 6۔ عوام نے تو آپ کو مسترد کر دِیا تھا پھر آپ پاکستان کیا لینے آئے ہیں؟‘‘
اِس طرح کے تبصروں پر مجھے طاہر اُلقادری صاحب پر بہت ترس آیا۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ اگر وزیرِاعظم صاحب طاہر اُلقادری صاحب سے پرانے تعلقات کی وجہ سے اُن سے مناظرے کے لئے مان جائیں تو عوام کو علّامہ صاحب کی روز روز کی چِنگھاڑوں، غیظ و غضب سے بھری آوزوں اور اعضا کی شاعری سے تو نجات مِل جائے گی۔ یہ الگ بات کہ وزیرِاعظم صاحب کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں اور طاہر اُلقادری صاحب کے پاس صِرف ایک ہی کام ہے کہ کسی نہ کسی طرح اور جتنی جلدی ہو سکے وہ پاکستان میں ’’سبز انقلاب‘‘ لے آئیں، وہ ’’قائدِ انقلاب‘‘ کا کردار ادا کریں اور اُن کے ہر عقِیدت مند کو (ساون کا موسم نہ بھی ہو تو) چاروں طرف ہرا ہی ہرا دکھائی دے۔ پھر مَیں نے تصّور کی آنکھ سے دیکھا کہ علّامہ صاحب نے وزیرِاعظم ہائوس کا ٹیلی فون نمبر ڈائل کیا اور فرمایا …
علّامہ طاہر اُلقادری! ’’دیکھئے مَیں شیَخ اُلاِسلام علّامہ ڈاکٹر طاہر اُلقادری بول رہا ہوں۔ کینیڈا والا اور مَیں وزیرِاعظم میاں نواز شریف صاحب سے بات کرنا چاہتا ہُوں۔ مہربانی سے جلد بات کرا دیں۔ میرا وقت بہت قیمتی ہے۔‘‘
آپریٹر ’’جی سر! ابھی مِلواتا ہُوں وزیرِاعظم صاحب سے، آپ کچھ دیر انتظار کریں اور ہاں علّامہ صاحب آپ کب تک اپنا انقلاب لے آئیں گے؟‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری! ’’تُم مجھ سے زیادہ بے تکلف ہونے کی کوشش نہ کرو ورنہ مَیں تمہیں ایسی بددُعا دُوں گا کہ تم وہیں بیٹھے بیٹھے بھسم ہو جائو گے۔ سُنتے ہو یا نہیں؟‘‘
آپریٹر ’’جی سر! ابھی بات کراتا ہوں۔‘‘ (تھوڑے وقفے کے بعد) ’’لیجئے علّامہ صاحب! وزیرِاعظم صاحب آن لائن ہیں۔‘‘
وزیرِاعظم! ’’معاف کیجئے علّامہ صاحب آپ کو انتظار کرنا پڑا۔ فرمائیے کیسے زحمت کی؟‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری! ’’میرا ہر کام اللہ اور اُس کے رسولؐ کی خوشنودی اور خلقِ خُدا کی فلاح کے لئے ہوتا ہے۔ مَیں آج آپ سے آخری بار بات کر رہا ہوں۔ پھر موقع نہیں مِلے گا۔‘‘
وزیرِ اعظم! ’’آخری بار بات کیوں؟ کیا آپ کینیڈا واپس جا رہے ہیں؟‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری! ’’دیکھئے یہ مذاق کا وقت نہیں ہے۔ اب مَیں کینیڈا واپس جانے کے لئے پاکستان نہیں آیا۔ مَیں نے اپنا سارا سامان یہاں تک کہ جرابیں تک منگوا لی ہیں۔ مَیں پاکستان کے غریبوں کے حق میں انقلاب لا کر رہوں گا۔ آپ اپنا بندوبست کر لیں!‘‘
وزیرِ اعظم! ’’آپ شوق سے انقلاب لائیں۔ بھلا مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری! ’’مَیں چاہتا ہوں کہ اِس سے پہلے کہ مَیں انقلاب لا کر آپ کا، محترم میاں شہباز شریف کا اور آپ کے خاندان کے دوسرے لوگوں کا بے رحمانہ احتساب کروں آپ مجھ سے فوری طور پر مناظرہ کریں اور دلیل سے ثابت کریں کہ آپ وزرات ِعظمیٰ پر فائز رہنے کے اہل ہیں یا نہیں؟‘‘
وزیرِاعظم! ’’عجیب بات کرتے ہیں آپ علّامہ صاحب؟ عوام نے مجھے وزارتِ عظمیٰ کا اہل سمجھا ہے تبھی تو میری مسلم لیگ کو بھاری مینڈیٹ دِیا ہے۔ پھر مَیں آپ سے مناظرہ کیوں کروں؟‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری! ’’اِس لئے کہ آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ اِس وقت مُلک اور قوم کو بہت بڑا خطرہ ہے۔‘‘
وزیرِاعظم! ’’مسلم لیگ اور اِس کے اتحادیوں کی حکومت ، پاکستان کی مسلح افواج اور پوری قوم ہر خطرے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آپ فِکر نہ کریں اللہ تعالیٰ خود پاکستان کی حفاظت کریں گے!‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری! ’’مَیں شیَخ اُلاِسلام ہوں۔ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں برسرِ اقتدار آنے کی اب میری باری ہے۔ میرے بعد دونوں بیٹوں ڈاکٹر حسن اُلقادری اور ڈاکٹر حسین اُلقادری کی۔ پاک فوج کے افسران اور جوان میری تقریروں سے خوش ہیں وہ میرے انقلاب کا راستہ نہیں روکیں گے۔ جب میں ایک کروڑ نمازیوں کو جنہیں ایک وطن دشمن کالم نویس نے میرے ایک کروڑ گُلّو لکِھا ہے اسلام آباد کے ڈی چوک میں لا کر کھڑا کر دوں گا تو ’’انقلاب آوے ای آوے؟‘‘
وزیرِ اعظم! ’’تو مَیں آپ کے لئے کیا کر سکتا ہوں؟‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری! ’’ٹیلی فون بند کرنے سے پہلے آپ مناظرے سے متعلق میرے تیار کردہ قواعد و ضوابط سُن لیں!‘‘
وزیرِاعظم! ’’چلئے! سُنا دیں لیکن مَیں آپ سے مناظرہ نہیں کروں گا؟ مجھے مناظرے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری ’’آپ میرے ساتھ مناظرہ کنونشن سنٹر یا ایوانِ اقبالؒ میں کریں گے۔ اِن کے علاوہ کوئی دوسری جگہ بھی ہو سکتی ہے کہ جہاں اِس طرح کا انتظام ہو کہ کسی بھی شخص کو تلاشی لئے بغیر ہال میں داخل نہ ہونے دِیا جائے۔ مجھے اور میرے دونوں بیٹوں کو تین الگ الگ بُلٹ پروف گاڑیاں بھی دی جائیں۔‘‘
وزیرِاعظم! ’’اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ آپ اپنے اور اپنے دونوں بیٹوں کی سکیورٹی کے بارے میں بہت خوفزدہ ہیں؟‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری! ’’جان کا خوف کِسے نہیں ہوتا؟ کیا آپ نے اپنی اور اپنے خاندان کی سکیورٹی کا انتظام نہیں کر رکھا؟ اور وہ مولانا فضل اُلرحمن جو آپ کے دَور میں بھی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں وہ بھی تو بُلٹ پروف گاڑی لئے پھرتے ہیں اور جب چاہتے ہیں سرکاری خرچ پر عُمرے کے لئے چلے جاتے ہیں۔‘‘
وزیرِاعظم! ’’اگر آپ چاہیں تو مَیں آپ کو بھی سرکاری خرچ پر عُمرے کے لئے بھجوا سکتا ہوں اور حج پر بھی۔‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری! ’’آپ میری بات کو ٹالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پوری دُنیا میں پھیلے ہُوئے میرے مُریدوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ میری قیادت میں انقلاب لانے والے ایک کروڑ نمازیوں کے لئے حج کے اخراجات بھی برداشت کر سکتے ہیں۔‘‘
وزیرِ اعظم! ’’اور جب آپ کے ایک کروڑ نمازیوں کے لئے بُلٹ پروف گاڑیوں کے خریدنے کا مسئلہ آیا تو؟‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری! ’’میرے لائے ہُوئے انقلاب کے بعد میرے ہر انقلابی نمازی کو بُلٹ پروف گاڑی سرکاری خزانے سے مُفت دی جائے گی۔‘‘
وزیرِاعظم! ’’اور پاکستان کے باقی 19 کروڑ لوگوں کے لئے؟‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری! ’’کیا آپ نے اُن لوگوں کو بُلٹ پروف گاڑیاں فراہم کر رکھیں ہیں جو مَیں انہیںفراہم کروں؟ میرا کام تو بس انقلاب لانا ہے تو لے آئوں گا۔‘‘
وزیرِاعظم! ’’اچھا تو اجازت دیجئے گا علّامہ صاحب!‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری! ’’اور وہ مناظرے والی بات؟‘‘
وزیرِاعظم! ’’میرے پاس وقت نہیں ہے۔‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری! ’’وقت تو میرے پاس بھی نہیں ہے۔‘‘
وزیرِاعظم! ’’تو پھر فوراً جائیے، کہیں آپ کی ٹرانٹو کی فلائیٹ مِس نہ ہو جائے؟‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری ’’مَیں ٹرانٹو نہیں جائوں گا۔ البتہ آپ دوسری بار سعودی عرب جائیں گے۔‘‘
اُس کے بعد ٹیلی فونک رابطہ ٹوٹ جاتا ہے۔
علّامہ طاہر اُلقادری! ’’ہیلو ہیلو کر رہے ہیں کہ رابطہ بحال ہو گیا۔
آپریٹر! ہیلو علّامہ طاہر اُلقادری صاحب! مَیں آپریٹر بول رہا ہُوں!‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری! ’’آپریٹر بھائی جان! ابھی میری وزیرِاعظم صاحب سے بات ہو رہی تھی کہ رابطہ ٹوٹ گیا۔‘‘
آپریٹر! ’’وزیرِاعظم صاحب تو تین دِن سے کراچی میں ہیں!‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری ’’کراچی میں! تو آدھ گھنٹے سے مجھ سے کون بات کر رہا تھا؟
آپریٹر! ’’اچھا وہ! وہ توایک نیا آپریٹر بھرتی ہُوا ہے۔ اُسے آپ سے بات کرنے کا شوق تھا۔ سو مَیں نے پورا کر دِیا۔‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری! ’’بدبختو! یزدیو! دیکھ لُوں گا ایک ایک کو!‘‘ اُس کے بعد میرے تصّور کی ساری کلیاں بِکھر گئیں۔ ٹیلی ویژن پر ملکہ ترنم پاک فوج کے جوانوں کو خراجِ عقِیدت پیش کرتے ہُوئے نغمہ سرا تھیں۔
’’اے وطن کے سجِیلے جوانو، میری نغمے تمہارے لئے ہیں‘‘