یہ مصرع پیروڈی کے ساتھ زیادہ مزیدار اور حسب حال اور حسب موقع ہو گیا ہے۔ یہ اینکر مین نعمان نے پڑھا ہے کہ مزا آگیا۔ اصل مصرع یہ ہے :
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا
گلو اور اس اُلو میں فرق نہیں رہا۔ اب تو ہر شاخ یعنی ہر محکمے ہر شعبے ہر ادارے میں یہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں کیا بتائوں کہ آپ خوب جانتے ہیں وہ کون ہیں اور کہاں کہاں ہیں۔ وہ ہر کہیں ہیں۔ بڑی بڑی پوزیشنوں پر ہیں۔ اپوزیشنوں میں بھی ہیں۔
آج کل گلو بٹ بہت قابل ذکر ہے بلکہ وہ ہیرو ہے اور انٹی ہیرو بھی ہے۔ اب ولن اور ہیرو میں فرق نہیں رہا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے عجیب بات کی ہے کہ یہ ڈیموکریسی نہیں گلوکریسی ہے۔ جس طرح میں بیوروکریسی کو براکریسی کہتا ہوں۔ آج کل بُراکریسی کے دو نمائندے وزیراعظم ہائوس پر قابض ہیں۔
پولیس اور انتظامیہ کے گلو بٹ ہوتے ہیں اور خود پولیس اور انتظامیہ میں بھی گلو بٹ بھرے پڑے ہیں۔ پولیس ٹائوٹ کی اتنی عزت پولیس والے نہیں کرتے۔ اگر وہ سرکاری پارٹی کے بندے نہیں ہوتے تو ان کا تعلق سرکار سے ضرور ہوتا ہے۔ پولیس کے ٹائوٹ تو ان کے جھوٹے گواہ ہوتے ہیں جو ہر مقدمے میں قرآن اٹھا کے جھوٹی گواہی دیتے ہیں۔ انہیں سلطانی گواہ بھی کہا جاتا ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کی طرف سے بادشاہ سلامت کی بات چلی تو چودھری پرویز الٰہی نے کہا کہ وہ میرے لئے تو ’’میرا سلطان‘‘ ہیں۔ تو اب سوچیں کہ گلو بٹ ٹائوٹ اور سلطانی گواہ ہے تو اشارہ کس طرف ہے جبکہ اب یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ ماڈل ٹائون منہاج سیکرٹریٹ میں قتل عام کا منصوبہ اسلام آباد میں بنایا گیا تھا۔ اب 14 اگست کا منصوبہ بھی وہیں تیار کیا جا رہا ہے۔
ایک دلچسپ بات وزیر قانون رانا مشہود نے بھی کی ہے کہ ہم گلو بٹ اور گل خان کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ نجانے یہ اشارہ کس طرف ہے۔ سیاست کا خان تو ایک ہی ہے۔ عمران خان؟ مجھے گجرات کے جیالے سیاستدان غضنفر علی گل یاد آتے ہیں۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں میرے کلاس فیلو تھے۔ وہ زبردست مقرر ہیں۔ زبان میں لکنت کے باوجود وہ سٹوڈنٹس میں بہت مقبول تھے۔ بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں۔ ہم اسے ’’مُچھل خان‘‘ کہتے تھے۔ اب اس کی لمبی گھنی داڑھی ہے مگر ہم اسے پیار سے بھی دڑھیل نہیں کہتے۔ ہائوس آف کامن سٹائل مباحثوں میں وہ پنجابی زبان کے ترجمان ہوتے۔ پرنسپل کالج بے پناہ پڑھے لکھے دانشور ڈاکٹر محمد اجمل انگریزی اور میں (محمد اجمل خان نیازی) اردو میں تقریر کرتے تھے۔ ایک موضوع تھا ’’کون جنت میں جائے گا۔‘‘ ہیر، غالب، یا سقراط تقریریں ہوئیں اور فیصلہ غضنفر علی گل کے حق میں ہُوا۔ ہیر جنت جائے گی۔ گل نے ہیر کو ہیرو بنا دیا تھا۔ مگر ہاں میں غضنفر علی گل کی طرف سے یہ مصرعے سُنانا چاہتا ہوں:
کہا گجرات ہو آئیں کہا گجرات ہو آئو
کہا گل خان کا ڈر ہے کہا گل خان تو ہو گا
رانا مشہود نے گلو بٹ کے ساتھ گل خان کو بھی ملا دیا ہے۔ گل بٹوں اور گل خانوں سے کب نجات ملے گی؟ رانا صاحب کی بات دلچسپ ہے۔ مگر زور گلو بٹ کی بجائے گل خان کو ختم کرنے پر ہے۔ گلو بٹ کے ساتھ پولیس کا جو رویہ تھا وہ ناقابل فہم ہے۔ اُن کے سامنے اُس نے جو کارروائی کی وہ ایسی ہی تھی جیسی خود وہ کرتے ہیں۔ پولیس والے کسی غیر سرکاری آدمی کی عزت نہیں کرتے اور نہ اُس سے خوف کھاتے ہیں۔ اس معاشرے میں جس کی عزت نہیں ہوتی وہی سب سے زیادہ باعزت ہوتا ہے۔ گلو بٹ کا تعلق افسران اور کسی نہ کسی حکمران کے ساتھ ہو گا ورنہ وہ پولیس والوں کو کیوں محبوب ہوتا۔ پولیس والے حکمرانوں کو محبوب ہوتے ہیں، اس میں حکمرانوں کے لئے کوئی تخصیص نہیں ہے۔ پولیس کی تنخواہیں دُگنی کی گئیں، ان کی کرپشن اور ظلم و ستم میں کمی نہ آئی۔ کرپشن سے بڑا ظلم کیا ہو گا۔ رائے ونڈ میں دو دہشت گردوں سے 200 سے زیادہ پولیس کے شیر جوانوں نے مقابلہ کیا۔ دہشت گرد نواز شریف کے محل تک جا پہنچے ہیں اور پولیس کو کئی مہینوں تک پتہ ہی نہ چلا۔ دو دہشت گردوں سے دس گھنٹوں سے زیادہ مسلح لڑائی کے بعد قابو پایا جا سکا۔ ایک اہلکار شہید ہوا اور کئی زخمی ہوئے۔ پولیس سے حکومت بہت خوش ہوئی ہے۔ شہید پولیس اہلکار کے اہل خانہ کے لئے ایک کروڑ روپے کا اعلان ہوا جبکہ عام مرنے والوں اور عام طور پر پولیس کے اہلکاروں کے قتل کا معاوضہ چند لاکھ روپے ہوتا ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ پولیس اہلکار کے قتل کی قیمت دو کروڑ بلکہ کروڑوں روپے ہوتی مگر یہ تفریق کیوں ہے؟
آپ نے پنجاب کے وزیر قانون رانا مشہود کا مزیدار اور معنی خیز جملہ سُنا۔ اب سندھ کے وزیر قانون منظور وسان کی بات سُنیں، وہ سیاسی خوابوں کے لئے مشہور یا بدنام ہیں مگر یہ بات تو ایسے خوابوں کی تعبیر جیسی ہے، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میاں بیوی کی طرح ہیں جس میں میاں کا کردار پیپلز پارٹی کا ہے۔ اس کا جواب تو حیدر عباس رضوی اور ڈاکٹر فاروق ستار دیں گے مگر وسان صاحب نے بات بہت معنی خیز کی ہے۔ سندھ کی متحدہ حکومت میں جتنے جھگڑے اور مخالفانہ بیان بازی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں ہوتی ہے اس سے زیادہ کسی گھر میں میاں بیوی کے درمیان جھگڑے اور تُو تکار اور تکرار نہیں ہوتی ہو گی۔ ایک دفعہ ہیلری کلنٹن کو ایک خوبصورت اور شوخ صحافی نما خاتون نے کہہ دیا تھا کہ آپ کا رویہ حکومت پاکستان کے ساتھ ساس والا ہے جسے انہوں نے بھی انجوائے کیا مگر ایک بُری ساس کا رویہ جاری رکھا۔ ہمارا خیال ہے کہ بہو کو بھی رویہ ٹھیک کرنا چاہئے۔ ہم تو صرف نعرہ لگانے کے لئے لگاتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد!