اسلام آباد (این این آئی) پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے انہیں گزشتہ ماہ اپنے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے اسلئے کابل بھیجا تھا کہ حکومت کو ایسی معلومات دی گئی تھیں کہ شاید افغانستان پاکستان کیخلاف کوئی اقدام اٹھانے والا ہے، وزیراعظم کا اصرار تھا کہ افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات میں موصول ہونیوالی معلومات کے حوالے سے بات چیت کرنی چاہئے تاکہ دونوں دوستانہ ممالک کے درمیان غلط فہمی اور حالات خراب نہ ہوں۔ یاد رہے کہ محمودخان اچکزئی کو اٹھارہ جون کو وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے کابل بھیجا تھا جنہوں نے صدر کرزئی کو وزیراعظم کا خصوصی پیغام بھی پہنچایا تھا۔ اس سوال پر کہ پاکستان میں خارجہ پالیسی فوج بناتی ہے اور کیا اس پالیسی میں اب کوئی تبدیلی آئی ہے تو پختون رہنما نے کہاکہ اگر یہ کہا جائے کہ سو فیصد یہ پالیسی سیاسی قیادت بناتی ہے تو یہ غلط ہوگا لیکن بہت فرق آیا ہے، ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی پاکستان کی ترقی چاہتا ہے تو اس ملک میں جمہوریت ہونی چاہئے۔ پاکستان میں پشتون، پنجابی، سرائیکی، سندھی اور بلوچ رہتے ہیں، فوجیوں کویہ بات سمجھنی چاہئے، اگر کسی نے پاکستان کو بچانا ہے تو یہاں جمہوریت رہنے دیں، منتخب پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہونا چاہئے اور منتخب پارلیمنٹ داخلی اور خارجی پالیسیاں بنائے۔ محمود خان اچکزئی نے کہاکہ پاکستان افغانستان اور خطے سے دہشتگردی کے خاتمے کا ایک ہی راستہ ہے کہ پاکستان افغانستان کی آزادی کا احترام پڑے اور وہاں مداخلت نہ کرے اگر دہشتگردی ختم کرنی ہے تو پاکستان اور افغانستان یہ وعدہ کریں کہ ایک دوسرے کے خلاف مسلح افراد نہیں رکھیں گے تو مسلح گروہ اسلحہ رکھ دینگے اور دونوں ممالک کے طالبان حکومتوں کے ساتھ مذاکرات کر نے پر مجبور ہونگے، اس پالیسی سے دونوں ممالک کی دوستی شروع ہوئی اور خطہ تباہی سے چھٹکارا پالے گا۔ شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والے افراد سے متعلق سوال پر انہوںنے کہاکہ جس علاقے میںاپنے ممالک کے علماء اور سیاسی رہنما نہیں جا سکتے ہیں وہاں ہزاروں ازبک، عرب اور چیچن کیسے آگئے۔ کن لوگوں نے ان غیر ملکیوں اسلحہ، خوراک اور دیگر سہولیات فراہم کیںجہاں سے انہوںنے پاکستان کے فوجی مرکز جی ایچ کیو اور دیگر اہم مقامات پر حملے کئے اور پاکستان کو بھی اربوں کا نقصان پہنچایا۔ شمالی وزیرستان کے آپریشن کے متعلق انہوںنے کہاکہ یہ فیصلہ عجلت میں کیا ہے بغیر منصوبے کے کیا ہے اگر آپریشن کرنا تھا تو پہلے لوگوں کو وہاں سے نکالنا چاہئے تھا لیکن وہی غلطی دہرائی گئی جو سوات میں کی گئی تھی اور سخت گرمی کے موسم میں سوات کے لوگوں میں کو مردان اور چار سدہ جیسی سخت گرمی میں خیموں میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ اگر فوج نے آپریشن کر نا تھا تو جنوبی وزیرستان میں جگہ بنانی چاہئے تھی۔