عفت اور جاوید پنجاب یونیورسٹی کے ادارہ تعلیم و تحقیق میں مختلف ڈیپارٹمنٹ میں پڑھتے تھے، جاوید کی انتھک اور لگاتار محنت رنگ لے آئی اور آخر کار دونوں کے معاشقے کا انجام بدنام ہونے سے پہلے ہی رشتہ ازدواج کے بندھنوں میں بندھ گیا، جاوید کی کینیڈا کی شہریت ملنے پر ٹورنٹو روانگی ہو گئی، جہاں اس نے ہوٹل مینجمنٹ کی ڈگری لیکر فائیو سٹار ہوٹل میں جی ایم کی ملازمت اختیار کر لی اور عفت کو بھی کینیڈا بلا لیا اور رات دن ایک کر کے عفت کی مدد کی، ساری رات بیٹھ کر اس کیلئے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کیلئے تھیسزز ٹائپ کرتا رہتا۔ اس دوران جاوید اشتہار دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ڈرائیور کی تنخواہ اسکی موجودہ تنخوا سے دوگنی سے بھی زیادہ ہے۔ لہٰذا وہ بس ڈرائیور بن گیا اور عفت ڈاکٹر بن کر پرنسپل ہو گئی۔ جاوید نے شہر کی انتہائی مہنگی جگہ پر بہت بڑا بنگلہ بھی خرید لیا تھا، عفت بہت جلد مغربی رنگ میں رنگی گئی اسکی نظر بہت بڑے گھر پر تھی، امریکہ اور کینیڈا کے قانون کیمطابق اگر عورت کو طلاق ہو جائے، تو گھر عورت کے نام ہو جاتا ہے۔ عفت نے عدالت میں طلاق کی درخواست دائر کر دی۔ جاوید نے جب یہ سنا تو زمین اسکے پائوں کے نیچے سے کھسک گئی، وہ عدالت جا پہنچا، اور جج کو یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ میں لعنت بھیجتا ہوں اس بڑے گھر پر جس نے رشتوں کے تقدس کو پامال کر دیا اور سامان لے کر ایک چھوٹے سے فلیٹ میں منتقل ہو گیا۔ عفت نے اپنے دو جوان بچوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا کہ میں نہیں چاہتی کہ کوئی تمہیں ڈرائیور کا بیٹا کہے اور تیس سال بعد جاوید سے طلاق لے لی۔دراصل کسی مغربی ملک کی شہریت لینے سے پاکستانی ذہنیت نہیں بدلتی، کیونکہ صدیوں تک ہندوئوں کیساتھ معاشرتی تعلقات کی بنا پر ذات پات، رنگ و نسل، نیک و بدشگونی کی بدعات، قسمت کا حال پوچھنا سعدو بد اوقات، اللہ کے دنوں میں امتیاز کی خرافات، مسلمان ہونیکے باوجود ہم میں بھی پائی جاتی ہیں گزشتہ دنوں اخبارات میں ’’بس ڈرائیور کا رکن پارلیمنٹ بیٹا ساجد جاوید برطانیہ میں وزیر تعلیم بن گیا اور لندن کے میئر بھی بس ڈرائیور کے بیٹے ہیں مقام صد حیف ہے کہ ہمارا دین تو ان گھٹیا باتوں کی نفی کرتا ہے۔ ہمارے باوا آدمؑ کسان تھے۔ حضرت ادریسؑ درزی تھے، حضرت نوحؑ ترکھان تھے، حضرت ابراہیمؑ مستری (معمار) تھے حضرت اسماعیلؑ مزدور تھے، حضرت شعیبؑ گلہ بانی کرتے (جانور پالتے تھے) حضرت موسیؑ ملازم تھے، حضرت دائود ابتداء میں لوہار تھے، حضرت ذکریاؑ مجاور تھے، حضرت لقمان، درزی، کاشتکار، کارپینٹر تھے، حضرت عیسیؑ درویش فقیر تھے جنہوں نے اپنا گھر تک نہیں بنایا تھا، جہاں رات پڑتی سو جاتے، ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفیﷺ ابتدا میں چرواہے تھے، بکریاں چراتے تھے (واضح رہے کہ تمام انبیائؑ اور پیغمبروں نے بکریاں چرائی ہیں) حضورؐ بہترین سپہ سالار، شہنشاہ عرش و فرش، مبلغ، بہترین تاجر، غرضیکہ اپنی امت کے باپ تھے، جنہوں نے ہر پیشہ اور ہر کام کو مثال بنا کر انتہاء کی کمال تک پہنچا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ عربی معاشرت میں احساس کمتری نہیں، صرف قبیلہ ہاشمی کو احساس تفاخر ہے کہ وہ حضورؐ کے قبیلے سے نسبت رکھتے ہیں جن کے وہ واقعی حق دار ہیں۔ یہی حال مغرب کا ہے وہ بھی پیشے کو وجہ امتیاز نہیں بناتے۔ بلکہ عربیوں کا کوئی دادا، پردادا بھی اگر معمار، مزدور یا لوہار کسی بظاہر معمولی پیشے سے بھی تعلق رکھتا تھا تو وہ پیشہ نام کے ساتھ لکھتے ہیں مثلاً حداد فیملی وغیرہ۔ آجکل پردہ دار، باکردار خاتون اول کے شوہر ترکی کے صدر طیب اردگان بھی نان اور شربت شہر کی شاہراہوں پر بیچتے رہے ہیں جن کی خاطر عوام نے نئی تاریخ رقم کی ہے، نہتے ہو کر ٹینکوں اور توپوں سے ٹکرا گئے اردگان کی خوداعتمادی جس کی بنا پر انہوں نے موبائل سے میسج بھیجا اور خودشناسی اور خودضبطی نے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا اور عوام اس چیز کو خاطر میں نہیں لائے کہ یہ شخص تو نان بیچتا تھا…؎
پابندی تقدیر کہ پابندی احکام
یہ مسئلہ مشکل نہیں اے مرد خرد مند
اپنی اور آپکی چشم کشائی کیلئے عرض ہے کہ ایک دفعہ فجر کی اذان دینے کیلئے آپؐ نے حضرت بلالؓ کو جنہیں ابھی تک حبشی کہا جاتا ہے اذان دینے کا حکم دیا تو لوگوں نے حضرت بلالؓ کی زبان کی لکنت اور موٹے ہونٹ اور کالی رنگت کی بنا پر اعتراض کیا تو اللہ نے اپنے حبیبؐ اور انکے پیارے بلالؓ کی خاطر اندھیرے کو قائم رکھا اور کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود سپیدہ سحر نمودار نہ ہوا۔ تو آخر کار حبشی بلالؓ نے اذان فجر دی تو سورج کو اذن طلوع ہوا لہٰذا میری پڑھے لکھے اور لکھنے والوں سے گزارش ہے کہ کسی معتبر و معروف شخصیت کو ڈرائیور کا بیٹا کہنے سے گریز کریں۔ اس کجی و کمی کی نفی کرنے کیلئے اللہ نے آپؐ کو معبوث فرمایا، اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے اعمال کے ہم خود جواب دہ ہیں ہمارے باپ دادا نہیں۔ اذان بلالی صرف زمین والے ہی نہیں عرش والے بھی سنتے تھے۔ بات صرف اخلاص اور خلوص دل کی ہے۔ یہ رشتہ غلامی چودہ سو سال سے قائم و دائم ہے۔ جو قیامت تک جاری و ساری رہے گا انشاء اللہ…
عاشق مصطفےؐ کی اذانیں اللہ اللہ کیا اثر تھا!!
عرش والے بھی سنتے تھے جس کو
کیا اذان تھی اذانِ بلالی
حضرت بلال نے جو اذانِ سحر نہ دی!!
قدرت خدا کی دیکھئیے نہ مطلق سحر ہوئی
کسی کو کم ذات سے بولنا، پکارنا یا دل میں کم ذات سمجھنا، تکبر و غرور کی علامت ہے، تکبر صرف اللہ تعالی کی ذات سے منسوب ہے، بندوں کو تکبر زیب نہیں دیتا، وہ مغرور کو سر کے بالوں سے پکڑ کر زمین پر پٹخ دیتا ہے!!!
بس ڈرائیور اور اذان بلالی
Jul 20, 2016