مہم جوئی کی سیاست نے ملک کو آگ کے کھیل میں مبتلا کیا ہے۔نیرو خصلت سیاستدانوں نے ذاتی بغض میں سازشوں کے جال بچھادیئے ہیں۔بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ نے وطن عزیز میں اپنے مہرے تیار کئے ہوئے ہیں جو کہ اقتدار کی مسند پر نظریں جمائے بے لگام تیز و تند گھوڑے پر سوار ملک کے مفاد اور بقا کو لاحق خطرات سے بے بہرہ ہوکر دوڑے جارہے ہیں۔وقت حاضر کے دانشور انہیں سیکیولر اور روشن خیال بتاکر انکی تعریفوں میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کئے جارہے ہیں۔یہ نیرو خصلت سیاستدان وطن عزیز کی خودمختاری کا سودا کئے جارہے ہیں اور غیر ممالک کے مفاد کی آبیاری میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کےلئے ایک دوسرے سے سبقت لینے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔عمر خیام فرماتے ہیں : متحرک انگلی لکھے جارہی ہے اور تحریر بڑھتی جا رہی ہے۔ یوں اغیار کی سکرپٹ لکھی جا رہی ہے اور اس اسکرپٹ پر اغیار کے کاسہ لیس ملکی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر مصروف عمل ہیں۔ 1997ءمیں میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم بنے تو ان کیخلاف سازشیں عروج پر پہنچ گئیں۔ صدر فاروق لغاری اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے گٹھ جوڑ سے چھ ماہ کے اندر نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کیلئے تانے بانے تیار ہوئے۔نومبر 1997ءمیں صدر فاروق لغاری اور جسٹس سجاد علی شاہ نے استعفیٰ دیا تو حکومت مستحکم ہوئی۔البتہ یہ سازش 1998ءمیں انڈیا کے ایٹمی ٹیسٹ دھماکوں کے دوران پاکستان کو غیر مستحکم رکھنے کی کوشش سمجھی جاتی ہے۔ 28مئی 1998ءکو پاکستان نے ایٹمی ٹیسٹ کے دھماکے کئے تو ایک بحران پیدا ہوا جسے قوم نہیں بھولی۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے دنیا کی واحد سپر طاقت کے حکم سے انحراف کرکے ایٹمی دھماکے کئے تھے۔ دسمبر 1998 میں نائیجیریا میں امریکی سفارتخانہ میں ٹرک بم دھماکہ کے واقعہ کے بعد امریکہ نے سوڈان اور افغانستان پر کروز میزائیل داغ دیئے۔امریکی صدر بل کلنٹن نے میاں محمد نواز شریف سے افغانستان پر حملہ کرنے کیلئے پاکستان کو اسٹیجنگ گراﺅنڈ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت طلب کی وزیر اعظم نواز شریف نے انکار کیا تو ان سے امریکا ناراض ہوگیا۔ ستمبر 1999ءمیںجب پاکستان نے غوری تھری )4500-5000کلو میٹر رینج( اور شاہین تھری )رینج 4500-5000کلو میٹر( بیلسٹک میزائیل کالیباریٹر ی میں راکٹ انجن کا اسٹیٹک ٹیسٹ کیا تو امریکہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا کیوں کہ اسطرح اسرائیل پاکستان کے میزائیلوں کی مار میں آجاتا ہے۔آخر کار نواز شریف کے ر خصت کا وقت آگیا اور اکتوبر 1999ءمیں جنرل پرویز مشرف انکی حکومت کا خاتمہ کرکے خود حکمران بن گئے۔ شاہین تھری اور غوری تھری بیلسٹک میزائیلوں کی رینج پر ٹیسٹ 2015ءتک مﺅخر ہوا۔جنرل پرویز مشرف کی حکومت شکست و ریخت میں مبتلا ہوئی تو بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کیلئے پیپلز پارٹی منظورنظر تھی اس لئے محترمہ بینظیر بھٹو کی تمام بدعوانیاں این آر او کے ذریعے دھودی گئیں۔ الیکشن مہم کے دوران محسوس ہوا کہ محترمہ کے تیور بدلتے جا رہے ہیں تو ان کو شہید کروایا گیا ہے یوں ایک طاقتور عوامی رہنما کو صفحہ ہستی سے مٹایا گیا اور پاکستان پر ایسے حکمران مسلط کئے گئے جو پارٹی چیئرمین کے اشاروں پر اپنے ضمیر کو بالائے طاق رکھ کر دست بستہ عمل کرتے رہے۔ پی پی پی کے دور حکمرانی میں امریکی اتحادی پاکستان کے ساتھ من مانیاں کرتے رہے اور خونیں کھیل کھیلتے رہے جبکہ حکمران عوامی دولت کی لوٹ میں مصروف رہے تاآنکہ 2013ءکے انتخابات کا وقت آگیا۔ تمام سیاسی جماعتیں عوام کی عدالت میں پیش ہوئیں تو ملک کی حکمرانی کیلئے عوام نے پاکستان تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کی پذیرائی نہیں کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین کو یکسر مسترد کیااور پاکستان مسلم لیگ نواز کو عوام میں پذیرائی ملی۔جبکہ روز اول سے ملک کی ایک جماعت پی ٹی آئی کے قائد نے مسلم لیگ ن کے قائد اور منتخب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کےخلاف الزامات کا طومار باندھ دیا۔ پھر قوم نے دیکھا کہ ریلیاں اور دھرنے تھے کہ ان کا انت نظر نہیں آتا تھا۔الزامات لگانے والے سپریم کورٹ میں ثبوت فراہم کرنے سے قاصر رہے۔ یوں سپریم کورٹ نے تمام الزامات رد کئے۔
افغانستان، عراق، لبنان، لبیا اور شام کے بعد 2015ءمیں یمن کی باری آئی ۔ سعودی عرب اور اسکے عرب اتحادی اب کے بار براہ راست یمن کے ساتھ جنگ میں الجھ پڑے۔پاکستان کو یمن کےخلاف جنگ میں شمولیت کی درخواست پر پاکستا ن نے معذرت کر لی تو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کےخلاف سازشوں کا ایک نیا سکرپٹ تیار کیا جانے لگا۔ستمبر 2015ءمیں پاکستان نے اپنے شہریوں کو جنگ زدہ یمن سے نکالنے کیلئے جنگی بحری جحاز یمن کی بندرگاہ عدن پہنچائے اور ساتھ میں شاہین تھری بیلسٹک میزائیل کا رینج پر ٹیسٹ کرکے2750کلو میٹر کے فاصلے پر واقع عدن بندرگاہ کے قریب بحیرہ عرب مین گرایا اور مطلوبہ مقاصد حاصل کئے۔ اب پھر سے بین الاقوامی سکرپٹ کاروں نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کےلئے وزیر اعظم میاں نواز شریف کیخلاف نئی طرح کی اسکرپٹ تحریر کرلی اور انکے کاسہ لیس متحرک ہوئے۔پھر سے دھرنے اور ریلیوں کا سلسلہ تھا کہ تھمتے نہ تھمے۔اکتوبر / نومبر 2016 میں کاشغر، گوادر سی پیک کو آزمائشی طور پر چالو کیا گیا تو قافلوں کو روکنے کیلئے مخصوص مقامات پر دھرنوں کا اہتمام کیا گیا جن کو سپریم کورٹ کے فیصلے کیمطابق حکومتی کاوشوں کی بدولت ناکام ہونا پڑا۔
امریکا میں مہم جو صدور کو عوام نے مسترد کیااور نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا میں دہشتگردوں کا خاتمہ کرنے اور دنیاکو دہشتگردی سے پاک کرنے کی حکمت عملی اپنائی ۔ یاد رہے کہ پاکستان کو بہر حال اپنے ملک میں دہشتگردی کا خاتمہ خود ہی کرنا ہوگا ۔ افغانستان میں امن قائم کرنے کیلئے امریکہ اور اسکے اتحادی چاہتے ہیں کہ پاک فوج افغان حکومت کی اجازت سے افغانستان کے اندر جاکر طالبان کیساتھ جنگ لڑے۔ کابل حکومت سے اجازت کا بندوبست امریکی انتظامیہ نے کر لینا ہے۔اس معاملہ میں ملاحظہ ہو راقم کا کالم ” دہشتگردی کیخلاف نئی لڑائی ٬ نوائے وقت 6 اپریل 2017 “۔ ISPR کی 15 جولائی 2017 کی پریس رلیز کیمطابق خیبر ایجنسی میں ایک ڈویژن پاک فوج کو تعینات کیا گیا ہے کہ افغانستان سے آنیوالے دہشتگردوں کا قلع قمع کیا جائے۔اس معاملے میں اس امر کو تقویت ملتی ہے کہ امریکی سینیٹر جان مکین کی زیر قیادت وفد کے دورے کے بعد کوئی ایسی صورتحال بن گئی ہو کہ پاک فوج کی بڑی قوت کو افغانستان کے اندر کسی مشترکہ آپریشن میں ملوث کرنے کیلئے خیبر ایجنسی میں پہنچایا گیا ہوگا۔کچھ ایسا لگتا ہے کہ مغرب نے پاکستان میں اپنے مہرے استعمال کرکے ملک میں بحران پیدا کیا ہے تاکہ پاکستان کی قیادت کی قوت ارادی کو متزلزل کیا جا ئے اور وہ وطن عزیز کے مفادات اور خودمختاری کا سودا کرنے پر راضی ہوجائیں۔ پاکستان کی بقا اور افواج پاکستان کی سلامتی کی خاطر افغانستان کی سرزمین پر پاک فوج کو جنگ میں ملوث کرنے سے قطعاً گریز کرنا چاہئے۔ البتہ پاک سرزمین کے اندر رہتے ہوئے توپوں ٬راکٹوں٬ میزالوں اور ڈرونز کے ذریعے افغانستان میں موجود دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کی حکمت عملی کو اپنانا بہتر عمل ہو سکتا ہے۔
حزب اختلاف میں مغرب کے کاسہ لیس پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت PPP کو ابھار رہے ہیں کہ بلاول زرداری بھٹو کی قیادت میں ریل مارچ کا اہتمام کیا جائے۔ ملک میں سکیورٹی حالات ایسے نہبں کہ محترمہ بی بی شہید کی آخری نشانی اور PPP کی جواں سال قیادت کو ایک لاحاصل عمل کی خاطر غیرمعمولی خطرے میں بھی ڈال دیا جائے جبکہ معاملات سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں تو پھر اسکے نتائج کا انتظار کرنا ہی مناسب ہوگا۔ آخر میں اﷲ رب العزت سے دعا کرتے ہیں کہ بداندیشوں کے شر سے وطن عزیز کو محفوظ رکھے۔ آمین ۔