پی پی پی: تحریک سے پارلیمانی حقیقت تک!

Jul 20, 2017

نیلم جبار (سابق صوبائی وزیر)

پت جھڑ، ساون، بسنت بہار انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کے بھی موسم ہوتے ہیں! اور جن تحریکوں کے پیچھے جدوجہد اور قربانیوں کی داستان ہو ان کے خاتمے پر صدیاں لگتی ہیں، اگرچہ جنریشن گیپ سے بعض اوقات مس انڈر سٹینڈنگ، سستی اور کاہلی دامن گیر ہوجاتے ہیں، لیکن جونہی متحرک اور دوراندیش قیادت میسر آجائے، پھر تحریک میں تازگی اور توانائی آجاتی ہے :
یہ خامشی کا زہر نسوں میں اتر نہ جائے
آواز کی شکست گوارا نہ کر
نشیب و فراز زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ عزم اور امید اٹھان کا باعث بن جایا کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی اگر شخصیت سیاسی طلسم اور جمہوری سحر رکھتی تھی تو محض اس لئے کہ وہ انسانی حقوق کی اہمیت اور جمہوریت کی افادیت سے آشنا تھے۔ اور وہ ہمیشہ کرپشن سے دور رہے یہی وجہ ہے کہ بدترین دشمن اور ضیائی آمریت ان کی مالی بدعنوانی ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئے مگر ’’ککھ‘‘ نہ ملا۔ ابتدا ہی سے بھٹو صاحب کو کئی سرمایہ داروں اور کچھ سطحی علماء کی مخالفت کا سامنا تھا۔ اس کے باوجود مخالفت نہ چھوڑی کہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا، اور 1973 کے آئین میں اسلامائزیشن کو لائے۔ بھٹو نے آئینی اصلاحات میں شراب نوشی کی شدید مخالفت اور اردو زبان کو اہمیت دی۔ حتی کہ خود بھی تیزی سے اردو سیکھنے کی سعی کی کہ عوام ان سے اور یہ عوام سے آشنا رہیں۔ انسانوں میں یقینا خامیاں بھی ہوتی ہیں مگر اجتماعی اقدار کی پاسداری رکھنے والوں میں کافی حد تک قول وفعل میں مطابقت بھی ہوتی ہے کہ، بھٹو صاحب نے ذاتی زمینیں ہاریوں میں تقسیم کرنے کی مثال قائم کی۔ ان کا انقلابی پروگرام دیکھ کر ابتدا ہی میں ایک طرف سے اگر بائیں بازو والے کارواں کا حصہ بنے تو دوسری جانب خانقاہوں والے اور صوفیاء کرام کے جانشین بھی سیاسی ہم سفر بنے۔ بھٹو کی کرشمہ سازی اور دوراندیشی کو اسی وقت بین الاقوامی پذیرائی ملی شروع ہوگئی جب وہ وزیر خارجہ بنے۔ اس وقت کے امریکی صدر نے ایک موقع پر کہا کہ… ’’اگر آپ امریکی ہوتے تو میرے وزیرخارجہ ہوتے!‘‘… بھٹو کا جواب بڑا رلچسپ تھا جو بہت مقبول ہوا : "جناب عالی ! صدر کیوں نہیں ؟ "بھٹو صاحب اسی لئے قائد عوام کہلائے کہ وہ عام آدمی کا سوچتے تھے اور عام اقوام کا بھی،اسی لئے ان کی فکر عام اقوام کا سوچتی تو تھرڈ ورلڈ کا بلاک تراش لیتی جو امریکیوں اور سرمایہ داروں پر گراں گزرتی۔ وہ اسلام کا سوچتے تو عالم اسلام کی سربراہی کانفرنس لاھور میں منعقد کرا دیتے، اپنے دور کے بڑے عالمی لیڈر شاہ فیصل، کرنل قذافی اور یاسر عرفات جیسے لوگ بھٹو صاحب کے گرویدہ اور ہمدم و ہمقدم تھے جو امریکہ کی چھاتی پر مونگ دلتے۔ آزادی کشمیر کے لئے ہردم آواز اٹھاتے اور پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے اس لئے کوشاں رہے کہ وہ بھارتی عزائم کو بھانپ گئے تھے۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہالینڈ سے بلوایا۔ ایک موقع پر وہ انتظامیہ کے رویہ سے تنگ آکر واپس چلے گئے لیکن بھٹو ذاتی رابطہ کرکے واپس لے آئے اور خود ذاتی دلچسپی رکھی۔ امریکی اور بھارتی لابیاں جانی دشمن ہو گئیں۔افسوس کہ پاکستان میں نوجوان نسل اور حلقہ دانشواران کا ذوق جزئیات زیادہ مگر تاریخ فہمی کا شوق کم رہا۔ نصابوں، کتابوں اور طالب علموں کا نصیب تاریخ کم اور پروپیگنڈہ زیادہ رہا۔
یہ المیہ ہے کہ،تاریخ،حقوق نسواں اور غریب کو یہاں انصاف مشکل ہی سے ملا ہے۔ کسی نے کبھی نوجوان نسل کو بتایا کہ پی پی پی نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے تعصب کا سامنا بھٹو صاحب، بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری تک نے اس لئے کیا کہ آئین سازی کی، آمریت کے راستے کی دیوار بنے، اشرافیہ سے بھی ہٹ کر عام آدمی کے لئے یونیفارم افسری تک کے راستے ہموار کئے۔ مزدور اور ھنر مند کو مڈل ایسٹ تک بھٹو ویژن کا کارنامہ لیکر گیا۔ نوے ہزار قیدی بھارت سے آزاد کرائے۔ آج کشمیری حریت پسند رہنما سید صلاح الدین کو محض اسلئے بھارت اور امریکن گٹھ جوڑ نے دہشت گرد قرار دے دیا، کیونکہ آج نواز حکومت کو عالمی پذیرائی حاصل ہے نہ عزت۔ کوئی قابل تحسین خارجہ پالیسی نہیں۔ پاکستان کی شہ رگ کشمیر کی تحریک آزادی کشمیر میں حکومت سلیقگی بھرنے سے قاصر ہے۔یونیورسٹیوں کا قیام تعلیم و تحقیق کے لئے عمل میں لایا گیا۔ برطانیہ کے بعد ایشیا میں پہلی دفعہ اوپن یونیورسٹی کو متعارف کرایا گیا۔ شہروں کو بائی پاس سڑکوں کے تحفے دئے گئے۔ پھر بے نظیر بھٹو نے جس میثاق جمہوریت کو متشکل کیا آج اسی بنیاد پر جمہوریت مضبوط ہے اور میاں نواز شریف اقتدار میں رونق افروز۔ بے نظیر بھٹو شہادت کے بعد آصف زرداری کا "پاکستان کھپے" کا نعرہ جمہوریت اور وفاق کے لئے آب حیات تھا۔ 18 ویں ترمیم کا تحفہ نہ ہوتا تو آج کسی اور صدر کا غلبہ ہوتا میاں نواز شریف کی وزارت عظمٰی کا بول بالا نہیں۔ بلوچستان کا خصوصی پیکج اور این ایف سی ایوارڈ کی منصفانہ تقسیم کمال تھا۔ سید یوسف رضا گیلانی جیسے لیڈر اور راجہ پرویز اشرف جیسے کارکن کو وزیراعظم ہاؤس تک بھٹوازم نے پہنچایا، ایسا کوئی ’’شریف ازم‘‘ خواب میں بھی نہیں کرسکتا۔
پی پی پی سیاست اور انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کا بحر بیکراں ہے۔ یہ وراثت کا معاملہ نہیں میراث کی حقیقت ہے۔ اس کو بھٹو کے ہوس پرست نام نہاد ساتھیوں اور بے نظیر بھٹو اور بلاول بھٹو زرداری کے انکل نما لوگوں نے بھی چھوڑا مگر یہ پی پی پی دریائے سیاست کی سیرابی عوامی شادابی کا باعث بنتی رہے گی۔ آصف علی زرداری اور نوجوان قیادت بلاول بھٹو زرداری ایک تربیت،ایک عزم، ایک تحریک اور جمہوری سلسلہ شجرہ نسب کا نام ہے! 18 ویں ترمیم سے نواز اینڈ کمپنی کو تخت و تاج ملا ورنہ مشرف آمریت نے تو تیسری دفعہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے دروازے اور راستے تو بند کردیئے تھے۔ عمرانی دھرنا نے بھی شریف خاندان کی بساط لپیٹ دی تھی تاہم زرداری صاحب نے جمہوریت اور پارلیمنٹ بچائے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے محسن آصف علی زرداری سے دھوکا کیا۔ پھنسے تو رائے ونڈ میں سرخ قالین ریسیپشن دی اور جب زرداری صاحب اینٹی اسٹبلشمنٹ میں آگے بڑھے، جب آپ نے مدد مانگی، مگر پھر پیچھے سے آپ غائب ہوکر دھوکے کی شاہراہ پر چل نکلے جیسے 2008 تا 2013 تک چل نکلتے۔۔افسوس صد افسوس!!!
افسوس کہ، جب بھی پی پی رہنما ناقابل تسخیر ہوئے انہیں پہلے الزامات اور بعد میں تختہ داروں اور گولی تک پہنچایا گیا۔ ستم تو یہ ہے کہ عام فہم نکتہ پر بھی کبھی غور نہ کیاگیا کہ آمر جرنیل یحی خان تخت وتاج کا مالک تھا اقتدار اس کے ہاتھ میں تھا۔انتقال اقتدار اس کی ذمہ داری تھی۔ وہ بند گلی میں تھا، مشرقی پاکستان اس کے سبب علیحدہ ہوا اور مغربی پاکستان میں شورش تھی ، تو بھٹو کو اقتدار دے کر باقی پاکستان بچالینے کی اسائنمنٹ دی گئی کہ،بھارتی مداخلت اور مجیب الرحمٰن کی دیرینہ کوششیں کہیں اور نقصان نہ کردیں۔ کاش آج کا مؤرخ، آج کا نوجوان، آج کا طالب علم اور آج کی اکیسویں صدی کی باشعور خاتون سیاسیات و سماجی اور عالمی تاریخ و قومی تاریخ کو سمجھے۔ کہیں دہشتگردی، کہیں حادثات اور کہیں سانحات۔ کہیں پانامیوں اور کہیں سونامیوں کی بے تدبیری۔ نئی نسل سیاسی موازنہ، تاریخی موازنہ، انتخابی موازنہ اور جمہوری موازنہ اور عالمی افق کے سیاسی و معاشی موازنہ خود کرے لکیر کی فقیری اور اندھی تقلید بند گلی تک لے جاتے ہیں۔ علمی سطح پر ماضی کی نسبت انتہائی سستا پٹرول،بہت سستا کوکنگ آئل کی قیمت بے انتہا کم اور سی پیک مال وزر ہاتھ میں ہوتے ہوئے بھی وہ ترقیاتی و اصلاحات و تعمیرات کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ آخر ماجرا کیا ہے؟ صحت اور تعلیم کی یتیمی اور بے بس نمایاں ہے۔ کہیں انقلابی ترقی نہیں محض ارتقائی تبدیلی ہے۔ پی پی پی طرز عالمی قیادت برسر اقتدار ہوتی تو سعودیہ، ایران اور قطر کے میں امن اور قربت کی شاہراہ ہموار ہوتی نظر آتی۔

مزیدخبریں