اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی)میری سرشت میں احتجاج کرنا شامل ہے اس لیے ہر بات پر ڈٹ جاتی ہوں۔ان خیالات کا اظہارممتا ز ڈرامہ نگار، افسانہ گار اور شاعرہ نور الہدیٰ شاہ نے اکادمی ادبیات پاکستان کے رائٹرز کیفے کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب ”اہل قلم سے ملےے“ میں کہی۔ادیبوں اوردانشوروں
نے ان کی فنی زندگی اور شخصیت کے حوالے سے گفتگو کی۔نورالہدیٰ شاہ نے کہا کہ میرے ڈرامہ ”جنگل “ نے سماج پر مثبت اور منفی دونوں اثرات چھوڑے ۔ٹی وی دور میں سخت سینسر شپ تھا اور اسی سینسر شپ کے دوران جو چاہا وہ لکھا۔انہوں نے کہا کہ رکاوٹ اچھا لکھواتی ہے۔ ڈرامہ نگار کو ہمیشہ کر دار کے ساتھ ڈھلنا پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عورت سوسائٹی کے مسائل سے گھبراتی ہے اس لیے آدھا سچ لکھتی اور آدھا پی جاتی ہے اور پی جانے والا سچ ہی اس کی اصل طاقت ہوتی ہے۔پروفیسر ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو ، چےئرمین ، اکادمی ادبیات پاکستان نے کہا کہنور الہدیٰ شاہ نے معاشرتی مسائل کو ہر دور میں کھل کر اُجاگر کیا۔ انہوں نے شاندار اور روایت سے ہٹ کر ٹی و ی ڈرامے لکھے ۔ اُن کے ڈرامے’ جنگل‘، ’تپش ‘اور ’عجائب گھر‘ اپنے دور کے شاہکار سیریز ہےں۔ اُن کے افسانوی مجموعے ’کربلا‘ اور ’جلا وطن‘ اہمیت کے حامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے تحت” میٹ اے رائٹر اوور اے کپ آف ٹی “ کے سلسلے کی یہ اکیسویں تقریب ہے اور اکادمی آئندہ بھی مختلف اہل قلم کے ساتھ اس سلسلے کی تقریبات منعقد کرتی رہے گی۔ تقریب میں ڈاکٹر فوزیہ سعید،کشور ناہید، پروفیسر فتح محمد ملک ، اصغر ندیم سید، مبین مرزا،سرمد صہبائی،شاہد مسعود،محمد حمید شاہد،علی اکبر عباس، کوکو،نیاز ندیم،منظر نقوی،افشاں عباسی،امین کنجاہی اور دیگرنے شرکت کی اور نور الہدیٰ شاہ کے فن و شخصیت اوران کی ادبی خدمات کے حوالے سے سوالات کیے۔