مریم نواز کا پاکستان

6 جولائی کو احتساب عدالت جس میں جناب نوازشریف کیخلاف مقدمہ زیرسماعت تھا۔ ساری دنیا کی توجہ کا مرکز تھی۔ عدالت کے جج محمد بشیر مقدمہ کی سماعت کے دوران ہی ریٹائر ہو رہے تھے۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کس بنا پر انکی مدت ملازمت میں تین برس کی طویل مدت کا اضافہ کیا گیا۔ فیصلے کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں عدالت 9 (a) (iv) (احتساب قانون) کے تحت کہا ہے کہ اس قانون کے تحت استغاثہ یعنی نیب کوئی Evidence نہ دے سکا لہٰذا ملزم (نوازشریف) کو Acquit کیا جاتا ہے یا بری کیا جاتا ہے۔ احتساب کے قانون کی یہ Section خالصتاً کرپشن کے حوالے سے ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ نوازشریف پر کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں کیا جا سکا۔ یہ محض مفروضہ ہے کہ نوازشریف کے بچے چھوٹے تھے اس لئے Presume کیا گیا ہے کہ یہ دولت نوازشریف کی ہوگی۔ریٹائرڈ جسٹس شائق عثمانی نے کہا کہ ٹھوس ثبوت اور شہادت کی بجائے فیصلے میں مفروضات کا سہارا لیا گیا ہے جو عدالتی فیصلوں کی مستند روایت نہیں ہے۔ایک بات یہ ہے کہ محترم جج صاحب اتنے بڑے فیصلے کیلئے ذہنی طورپر شاید تیار نہیں تھے۔ وقت کی نہایت قلت کی وجہ سے بھی انہیں ایک مشکل امتحان سے گزرنا پڑا۔ ایک سیشن جج میں یہ طاقت کہاں ہوتی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے مقابل کھڑا ہوسکے۔ جناب نوازشریف اپنی بھرپور اننگ کھیل چکے ہیں۔ وہ دو بار وزیراعلیٰ پنجاب اور تین بار وزیراعظم پاکستان رہ چکے ہیں۔ یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ ہمارا موضوع مستقبل کی سیاست ہے جس کیلئے اب مریم نواز کو وقت ضائع کئے بغیر پاکستان تشریف لاچکی ہیں۔
مریم نواز کو بینظیر کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ حالات مخالفین کی جانب سے سخت ہیں مگر جرأت اور حوصلہ چٹانوں کو شکست دیتا ہے۔ مصنوعی جمہوریت کے نام سے جو پودا لگانے کی سازش ہورہی ہے‘ وہ گرد کی نذر ہو جائے گی۔ جناب نوازشریف عزم حوصلے کی علامت ہیں۔ وہ قوم کے بے تاج بادشاہ ہیں۔جناب نوازشریف کو جو سیاسی کام انجام دینا ہے وہ لندن میں زیادہ بہتر طریقے پر انجام نہیں دے سکتے تھے۔ مریم نواز مشکلات کی فضا کے باوجود پاکستان میں اپنا انقلابی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ مریم نواز نوازشریف کی مقبولیت کی ڈوبتی کشتی کو بچا سکتی ہیں جس کو ڈبونے کیلئے مخالفین مشرکہ کوشش میں مصروف ہیں۔ وقت کی پانچ بار تبدیلی کے بعد جو فیصلہ سنایا گیا ہے‘ قانون کے مطابق اس کا جائزہ لینا ممکن ہے اور حدود کے اند ر تنقید بھی جائز ہے۔ سزائیں بظاہر بے رحمانہ ہیں۔ اپیلیں دائر ہوچکی ہیں۔ اگر لندن فلیٹس نوازشریف کی ملکیت ہیں تو اس کا ثبوت کیا ہے؟ قانون کا تقاضا ہے کہ کوئی بات فرض نہ کر لی جائے۔ یہاں سب کچھ Presume کیا گیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ مناسب ثبوت اور Proof چھپا نہیں ہے۔ بچوں کے پاس پراپرٹی خرید کرنے کے وسائل نہیں تھے۔ یہ بھی ایک مفروضہ ہے جبکہ یہ کہا گیا ہے کہ وسائل انکے دادا نے مہیا کئے تھے۔ فیصلہ محض الزام اور مفروضوں کی بنیاد پردیا گیا ہے۔ اپیلوں میں بھی یہی کچھ کیا گیا۔ دراصل یہ پورا مقدمہ ہی بہت ساری وجوہات کی بنا پر قانون کے مطابق نہیں بنایاگیا ۔ نیب نے تفتیش کی نہیں ہے‘ ایک پہلے سے مسلط جے آئی ٹی کو جو خود مشکوک ہے تفتیشی ادارہ فرض کر لیا گیا ہے۔ واجد ضیاء نے سپریم کورٹ کی ایما پر گواہی دی ہے؟ یہ سوال بھی تحقیق طلب ہے کیا فیصلے کے بعد واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان میں انصاف کے حوالے سے ادارے کتنے مجبور ہیں؟ عمران خان محض آلۂ کار ہیں۔ ایک بُت کو سجا کر نوازشریف کی سیاست کے خاتمے کیلئے مندر تراشہ جا رہا ہے‘ مگر ایسا ہوگا نہیں …؎
نثار میں تیری گلیوں پر اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
اس میں شبہ نہیں کہ الیکشن سے دو ہفتے پہلے فیصلے کی آمد کا مقصد مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان کی مقبولیت کو نقصان پہنچانا ہے۔ ڈیڑھ دو برسوں میں ہونیوالے اقدامات اور واقعات سے صورتحال کو بہت واضح طورپر پڑھا جا سکتا ہے۔ پاکستان ہماری محبت ہے‘ اس طرح کے معاملات پاکستان کیلئے سودمند اور مفید نہیں ہیں۔ ایک سیاسی جماعت کو کچلا جا رہا ہے۔ جمہوریت کی توہین ہو رہی ہے۔ ایک شخصیت کو سامنے لا کر لسانی تفرقہ میں بے مقصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ہمیں ڈر لگتا ہے 1971ء کے واقعات پھر جنم نہ لیں۔ دوسرے صوبے احساس محرومی کی شکایت کرتے رہے ہیں اور پنجاب کو ملزم ٹھہرا رہے ہیں مگر پنجاب میں ہی سیاسی مقبول قیادت کو ختم کرکے احساس محرومی پیدا کیاگیا تو کیا ہوگا؟ …؎
ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لادوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو

ای پیپر دی نیشن