آزادیٔ پاکستان سے صرف چار ماہ قبل کی بات ہے کہ کل ہند مسلم مجلس نے ’’اینٹی پاکستان‘‘ کانفرنس منعقد کی تھی۔ اس کانفرنس سے قبل جمعیت العلماء ہند کے صدر نے قائداعظم کو ایک خط لکھا کہ تمام مسلمان جماعتوں کا ایک جلسہ ہونا چاہئے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ مسلمان کیا چاہتے ہیں۔ قائداعظم نے کہا ’’آپ ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں مطالبہ خود بخود آپ کی سمجھ میں آ جائے گا‘‘…۔
ان دنوں لوگ آتش بیان، بے مثل خطیبوں اور خوش الحان قاریوں کو رات رات بھر سنتے تھے مگر بات قائداعظم کی مانتے تھے۔ میرے اگلے کالم کے لکھنے تک ملک میں الیکشن کے بعد کا سورج طلوع ہو چکا ہوگا لیکن قوم اس وقت آتش بیانی کو سن رہی ہے مگر اس وقت کسی ’’آتش بجاں‘‘ کو تلاش کر چکی ہو گی… الیکشن سے پہلے پچھلے دنوں پشاور میں بلور کی شہادت اور بلوچستان میں رئیسانی کی شہادت کا المیہ پیش آیا تھا خدا کرے کہ سکیورٹی کے معاملات اتنے بہتر رہیں کہ الیکشن پرامن طریقے سے منعقد ہو سکیں لیکن تحریک پاکستان والا زمانہ بھی پرامن طریقے سے سرانجام نہیں پا یا تھا۔ کشت و خون کا ہنگامہ برپا ہوا تھا اور ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی مگر مسلمانوں کے آزادی کے جذبات کو روکا نہیں جا سکا تھا اور اگر اس تحریک کو آگے بڑھنے سے خود مسلمان ہی دلبرداشتہ ہو کر چھوڑ دیتے یا قائداعظم کشت و خون کے حالات میں تحریک کو مدہم کر دیتے تو پاکستان نہ بنتا اور دشمن کی سازش کامیاب ہو جاتی… بڑی اور عظیم قوموں کو عظیم مقاصد کی تکمیل کیلئے جرات مندانہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں ورنہ بڑے بڑے مقاصد کا حصول ممکن نہیں رہتا۔ پاکستان کے موجودہ الیکشن بھی تمام تر مشکلات میں پایۂ تکمیل تک پہنچنے ضروری ہیں ورنہ ناقابل تلافی نقصان کا احتمال ہے۔
الیکشن کے انعقاد میں پانچ دن باقی ہیں۔ مجھے بہادر یار جنگ یاد رہے ہیں۔جب برصغیر کی تاریخ میں اپنا مستقل مقام بنانے کیلئے چند برس رہ گئے تھے وہ فجر کے وقت تفسیر، جمعرات کو درس اقبال، کبھی کبھی میلاد کی محفل ، اتحاد بین المسلمین کی تنظیم نو اور پھر دیگر تنظیموں کے ساتھ اسلام کا پیغام دیا کرتے تھے۔ یعنی انہیں احساس تھا کہ کام بہت بڑا ہے اور مہلت کم ہے… موجودہ سیاستدانوں کے سامنے ہی کام بہت بڑا ہے اور مہلت کم رہ گئی ہے یعنی الیکشن میں صرف پانچ دن باقی ہیں اور گفتار کا غازی ہر کوئی بننے کی کوشش میں ہے۔ مگر ملک کو اس وقت کردار کے غازی کی ضرورت ہے۔ نواب بہادر یار کو خاکسار تحریک کے رکن کی حیثیت سے کسی بات پر سزا کے طور پر گرائونڈ کے بھاگ بھاگ کر چکر لگانے پڑے تو انہوں نے لگائے… اقتدار کے ایوان میں پہنچ کر جگمگاتی سنہری مسند پر بیٹھنے والوں کو یہ احساس نہیں رہتا کہ کبھی اس مسند سے وہ اتر کر تپتی زمین پر ننگے پائوں بھاگنے کی سزا ہی مل سکتی ہے جبکہ پھر عوام تو ان سزائوں میں ہی زندگی گزار رہی ہوتی ہے لیکن اپنے اچھے وقتوں میں عوام کی تکلیفوں کا احساس اقتدر کے ایوان میں بیٹھنے والوں میں عوام کی تکلیفوں کا حساس اقتدر کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو نہیں ہوتا ہے۔بقول داغ: …؎
جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے
آپ بندہ نواز کیا جانیں
عمران خان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے ’’ تُف! اس انقلاب پر جو دور ماضی کے نشان نہ مٹا سکے… اور اسی وقت ملک میں جو انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان میں مردِ آہن قرار پانے والے لیڈر اور جنہوں نے جوہری توانائی کی داغ بیل ڈالی ان کے اقتدار میں آنے کا واقعہ دیکھا جا سکتا ہے۔ بھٹو جن کا جوش خطابت بے مثل تھا جنہیں تاریخ کا گہرا شعور تھا اور انہی کو وہ اختیارات دیئے گئے تھے کہ جوان سے پہلے کسی عسکری یا غیر عسکری فرمانروا کو پاکستان میں حاصل نہیں رہے تھے اور ان اختیارات کے بل بوتے پر وہ جو چاہتے نافذ کرواتے اور فیصلے کرتے۔ یحییٰ خان کے بعد بھٹو کو خصوصی طیارہ روم سے لے کر آیا تھا کیونکہ وہ پاکستان کے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بننے والے تھے اور پھر کیا ہوا؟… روئیداد خان نے لکھا ہے کہ ’’ ذوالفقار علی بھٹو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ تقدیر ان کے ہاتھ میں آ گئی ہے اور یہ بھی سمجھ بیٹھے تھے کہ جیسے ونسٹن چرچل نے 1939ء میں برطانوی وزارت عظمیٰ سنبھالتے ہوئے یہ محسوس کیا تھا کہ اس سے پہلے ان کی ساری عمر اسی ساعت کی تیاری میں گزری تھی مگر بھٹو نے بھی کئی سیاسی پارٹیوں کے خلاف محاذ کھولے اور پھر 1977ء کے الیکشن سے پہلے یکدم عوام سے رابطے، مذہبی معاملات میں بہتری کی کوشش اور پھر کئی سینئر فوجی افسروں کو نظرانداز کرکے ضیاء الحق کا انتخاب کیا گیا جو کہ بھٹو کے گلے پڑ گیا… اب سوچیں کہ جمہوری لیڈروں کی غلطیوں کا خمیازہ کس کس کو بھگتنا نہیں پڑتا اور تمام اختیارات کے بعد کوئی مخلوق اور خدمت کیا کر سکتی ہے؟ پھر 1988ء کے بعد نومبر 1990ء کے انتخابات کے نتائج میں نوازشریف سامنے آئے مگر صدر غلام اسحاق سے تعلقات نبھا نہ سکے اور ان دنوں بھی چودھری نثار جو پٹرولیم کے وزیر تھے ان دونوں کے درمیان صلح و صفائی کی کوششیں کرتے رہے تھے مگر نوازشریف نے اپنی روش جاری رکھی اور ان کے جنرل آصف جنجوعہ سے بھی تعلقات خراب رہے حتیٰ کہ ان کے استقبال کے بعد بھی آرمی چیف کے انتخاب پر بحث کرتے رہے جبکہ صدر پاکستان کے ذہن میں یہ آتا رہا کہ نوازشریف کو لامحدود اختیارات کی ضرورت ہے۔ اسی طرح وہ محمد خان جونیجو کے بعد خود مسلم لیگ کے صدر بن گئے تھے۔17اپریل 1993ء کو نوازشریف نے اپنا مخصوص رویہ اختیار کرکے صدر غلام اسحاق کے
خلاف ٹی وی پر تقریر بھی کی ۔ اس وقت بھی انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ صدر اسحاق کے آمرانہ فیصلوں کے آگے سر نہیں جھکائیں گے اور یہ بھی کہا کہ مجھے دھمکایا جا رہا اور ڈرایا جا رہا ہے… اور پھر نتیجے میں قومی اسمبلی توڑ دی گئی تھی اور پھر سپریم کورٹ کو بھی شامل ہونا پڑا تھا۔ تاریخ کے اوراق پر حکمرانوں کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملک کے اندر یہ صورتحال اور موجودہ زیر بحث موضوعات سامنے آنے کی گنجائش نہ رہے ملک میں جب بدعنوانی، اقرباپروری کی وبا پھیلا دی جائے گی اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ لاحق ہو جائے گا اور اختیارات کا ناجائز استعمال ہوگا اور ذاتی کاروبار اور جائیدادیں بنانے کا لامتناہی سلسلہ جاری ہو جائے گا۔ ناجائز مراعات کے قصے عام ہو جائیں گے۔ بے ضابطگیاں حد سے تجاوز کرنے لگیں گی تو اداروں کی تباہی کے بعد ملکی معیشت و سلامتی پر حرف آنے لگتا ہے اور تب دیگر معاملات سامنے آتے ہیں… الیکشن 2018ء کے نتائج اور عوام کی رائے پر بھی اندازے لگائے جا رہے ہیں۔ عمران خان کو مستقبل کے وزیراعظم کا اندازہ بھی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ عوام کی رائے اور نظریات میں تبدیلی کے آثار بھی ہیں۔ کرپشن اور دھاندلی کیخلاف آواز بلند اور توانا ہو چکی ہے۔ اس قوم کو ان تمام برائیوں کا خاتمہ اور صحیح جمہوریت کی ضرورت ہے جو ان کے بنیادی مسائل کو حل کر سکے اور خدا تعالیٰ سے اچھی امید رکھی جا سکتی ہے۔