غیرسیاسی دیہاتی ماسٹر صاحب سے سیاسی گفتگو

دوپہر سے ذرا آگے کا وقت تھا۔ لوگ ظہر کی نماز اور کھانے کے وقفے کے بعد ابھی واپس نہیں آئے تھے۔ میرے آفس روم کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ میں نے آنے کا کہا تو ایک صاحب اندر آئے۔ وہ عمر میں بزرگ تھے لیکن چال ڈھال میں بزرگی نہ تھی۔ سلام کرنے کے انداز سے ہی اُن کی باوقار اور خوددار شخصیت کا اندازہ ہوگیا۔ انہیں میرے دفتر سے کچھ کتابوں کی تلاش تھی لیکن وقفے میں لوگوں کی عدم موجودگی اور راہداری کی خاموشی انہیں میرے کمرے تک لے آئی۔ میں نے انہیں بتایا کہ مطلوبہ کتابوں کے حصول کے لئے انہیں تقریباً آدھا گھنٹہ اور انتظار کرنا پڑے گا۔ لہٰذا انہیںمیں نے انتظار کی یہ گھڑیاںمیرے کمرے میں ہی گزارنے کا مشورہ دیا۔ اُن کا لہجہ مصنوعی پن سے بالکل پاک تھا۔ اُن کی گفتگو اور کتابوں کے شوق سے ان کی علمی دلچسپی جھلک رہی تھی۔ انہوں نے بتایاکہ وہ سرگودھا کے قریب جھنگ روڈ پر واقع ایک دیہی قصبے کے مڈل سکول میں انگریزی اور سائنس کے استاد تھے اور اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ٹیچنگ کے دوران انہیں فارسی سیکھنے کا شوق ہوا جو انہوں نے پورا کرلیا۔ اب وہ ترکی زبان سیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لئے نمل یونیورسٹی اور دوسرے اداروں سے ترکی زبان سیکھنے کی کتب حاصل کرنے اسلام آباد آئے ہیں۔ میرے مزید پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ صرف یہ کتابیں لینے کے لئے ہی اپنے دور دراز کے قصبے سے یہاں آئے ہیںاور آج ہی واپس چلے جائیں گے۔ میرے اُن کی طرف زیادہ متوجہ ہونے کی یہی خاص وجہ تھی کہ ایک ریٹائرڈ شخص جو بہت ہی عام سطح سے ریٹائر ہوا ہو وہ صرف زبان سیکھنے اور علم دینے والی کتابیں حاصل کرنے کے لئے شدید گرمی اور حبس کے موسم میں اتنی دور کا سفر کرے جبکہ ان کے لئے اس علم سے جڑا کوئی روزگار بھی نہ ہو اور اب روزگار کے حصول کی ان کی عمر بھی نہ ہو۔ میں نے اس حوالے سے جب اپنی پرمسرت حیرانگی کا ہلکا سا اظہار کیا تو وہ کہنے لگے کہ ’’مجھے کتابوں کے ساتھ ساتھ پرانی تعلق داری کو نبھانے کا بھی بہت شوق ہے‘‘۔ میں کچھ زیادہ سمجھ نہ پایا تو انہوں نے وضاحت کی کہ ’’میرا ایک ریٹائرڈ کولیگ جو دور کے ایک شہر میں رہتا تھا، میں اس سے کبھی کبھار ملنے جاتا ۔ عرصہ دراز ہوا وہ فوت ہوگیا لیکن میں اب بھی اُس روایت کو نبھاتے ہوئے اس کے چھوٹے بھائی سے ملنے ضرور جاتا ہوں‘‘۔ انہوں نے کہا ’’میرے سکول میں درجہ چہارم (نائب قاصد) کا ایک ملازم تھا جو مجھ سے پہلے ریٹائر ہوگیا۔ میں نے اس سے اب تک تعلق قائم رکھا ہوا ہے۔ کبھی کبھار وہ مجھ سے ملنے آجاتا ہے اور اگر اس کے آنے میں زیادہ وقت ہو جائے تو میں اس کے گائوں چلا جاتا ہوں‘‘۔ ایسی ہی پرانی وضع داری کی چند اور باتیں انہوں نے کیں۔ ان کا لب و لہجہ اور الفاظ کا چنائو بہت دیسی تھا جس میں ذرہ برابر بھی نمائش نہ تھی۔ اسی لئے وہ ایسی شخصیت کے مالک تھے جنہیں خودبخود عزت دینے کو دل کرتا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ ان کی شخصیت میں سکون کی وجہ علم و ادب اور وضع داری سے دلچسپی ہے۔ وہ میڈیا کی جدید ٹیکنالوجی سے بے پرواہ ہیں اور انہیں سیاست بازی کی جدید بیماری بھی نہیں لگی ہوئی۔ اس لئے مجھے پورا یقین تھا کہ وہ آج کل کی گرما گرم الیکٹیبل سیاست پر کوئی خاص تبصرہ نہ کر پائیں گے۔ پھر بھی نہ جانے میں نے کیوں پورے ملک کے ماحول میں پھیلی انتخابی بے چینی کے حوالے سے ان کے خیالات پوچھے جس پر وہ چند لمحوں کے لئے خاموش ہوگئے۔ مجھے لگا کہ اب تک کی گفتگو میں وہ پہلی مرتبہ کچھ بوجھل ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’کہ پہلے ہارس ٹریڈنگ کا لفظ ایجاد ہوا پھر وہی لو ٹے کہلا ئے اور اب وہ الیکٹیبل کے نام سے پکارے جاتے ہیںمیں جس دیہی علاقے سے تعلق رکھتا ہوں وہاں چھوٹی سیٹ یعنی صوبائی اسمبلی پر پی ٹی آئی جیتے گی جبکہ بڑی سیٹ یعنی قومی اسمبلی پر ن لیگ کے شاہ صاحب کے جیتنے کا امکان ہے ‘‘۔ میرا فوری سوال تھا کہ جیتنے والے شاہ صاحب پی ٹی آئی میں کیوں نہیں گئے؟ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ البتہ مجھے لگا کہ وہ زیرلب مسکرائے ہیں۔ میں نے کہا اِن دنوں ن لیگ کی کرپشن کے بہت چرچے ہیں۔ وہ سنجیدہ ہوکر بولے ’’ہم نے تقریباً ساڑھے تین دہائیوں تک اپنے ہیرو ایٹمی سائنس دان کو ہر طرح کی عزت دی۔ پھر ایک دن وہی ایٹمی سائنسدان پی ٹی وی پر جنرل پرویز مشرف کے سامنے ایسے بیٹھے دکھائے گئے جیسے سب سے بڑے چور ہوںشاید انٹرنیشنل طاقتوں کا منہ کسی نہ کسی طرح بند کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ‘‘۔ دیہاتی ماسٹر صاحب کہتے گئے کہ ’’ہم نے اپنے دیہات میں سڑک ن لیگ کے دور میں دیکھی ہے۔ جہاں پیدل چلنا مشکل تھا وہاں اب کارپٹڈ سڑک موجود ہے۔ ہمارے گائوں میں سولر ٹیوب ویل لگ گئے ہیں جو اِسی دور میں متعارف ہوئے۔ ہمارے ہاں بجلی 2013ء کے مقابلے میں کم جاتی ہے ۔ہمارے قصبے میں ایک خطرناک ڈاکو تھا جو بھتہ وصول کرتا ،ڈاکے ڈالتا اور عزتیں لوٹتا ن لیگ کی حکومت نے اس کا صفایا کیا۔ اب ہم بے خطر سوتے ہیں‘‘۔ دیہاتی ماسٹر صاحب بولتے گئے کہ ’’میں صاف ستھرے سفید کپڑے پہن کر آپ کے سامنے بیٹھا ہوں۔ صبح اپنے گھر سے موٹرسائیکل پر نکلا تھا۔ سرگودھا موٹرسائیکل کھڑی کی اور ٹھنڈی بس میں بیٹھ کر اسلام آباد آگیا۔ یہاں یونیورسٹی گیا، آپ کے پاس آیا، ایک دو جگہ اور جائوں گا۔ شام کو واپس سرگودھا پہنچوں گا اور موٹرسائیکل لے کر مغرب کی نماز اپنے گھر پڑھوں گا۔ اگر ن لیگ نہ ہوتی تو سفر میں سڑکوں اور موٹروے کی یہ سہولتیں بھی شاید نہ ہوتیں۔ میرے کپڑے اس لمبے اور مٹی دھول والے سفر کے بعد صاف ستھرے بھی نہ رہتے اور یقینا میں اتنی گرمی اور حبس میں آنے کا خیال بھی نہ کرتا‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ملک شہروں سے پہچانے جاتے ہیں اور شہر منصوبوں سے۔ پیرس کا نام آئے تو فرانس ذہن میں آتا ہے اور ایفل ٹاور کا نام آئے تو پیرس ذہن میں آتا ہے۔ اسی طرح بادشاہی مسجد سے لاہور اور پاکستان کا خیال آتا ہے جبکہ سٹیچو آف لبرٹی سے نیویارک اور امریکہ ذہن میں آتا ہے۔ بالکل ایسے ہی میٹرو بس اور اورنج لائن سے لاہور اور پاکستان ذہن میں آئے گا‘‘۔ اسی وقت دفتر کی راہداری میں لوگوں کی آمدورفت شروع ہوئی تو انہوں نے اٹھ کر ہاتھ ملایا اور جاتے جاتے کہنے لگے ’’میرے خیال میں ہماری فوج محب وطن ہے، ہمارے جج صاحبان محب وطن ہیں، ہمارے سیاست دان بھی محب وطن ہیں۔ نہ جانے ن لیگ اور ان میں کیا اختلاف ہوگیا، یہ بہت بعد میں پتہ چلے گا۔ البتہ میری ایک رائے ہے کہ اِس مرتبہ ن لیگ حکومت بنائے یا نہ بنائے، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مجموعی طور پر بہت ووٹ حاصل کرے گی‘‘۔ انہوں نے مڑکر میری ایک ممکنہ غلط فہمی دور کرنا چاہی اور کہاکہ ’’میں آج تک ن لیگ کے کسی چھوٹے سے چھوٹے عہدیدار کے پاس بھی کوئی کام لے کر نہیں گیا اور اللہ سے دعا ہے کہ میں کبھی بھی کسی سیاسی فرد کے پاس کسی غرض سے نہ جائوں‘‘۔ جونہی دروازہ بند ہوا میں سوچنے لگا کہ دور دراز کے یہ دیہاتی لوگ اپنے خیالات میں کتنے پریقین اور کلیئر ہیڈڈ ہیں۔ کیا سنسرشپ اور پراپیگنڈہ بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا؟ عین اُسی وقت دیوار پر لگی ایل ای ڈی ٹی وی سکرین پر دو تبصرے اوپر نیچے چلے کہ الیکشن کمیشن کے تحت 2018ء کے انتخابات آزادانہ اور شفاف ہوں گے اور یہ کہ عمران خان نے ابھی سے اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھنا شروع کردیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن