یہ کوئی آج سے سات آٹھ سال قبل کی بات ہے جب ٹیتھیان کمپنی کو ریکوڈک منصوبے سے روک دیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ ٹیتھیان کمپنی کو سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا لائسنس جاری ہوا تھا۔ جبکہ ریکوڈک منصوبہ کو2011ء میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں منسوخ کردیا گیا تھا۔ جب کہ اس وقت ڈاکٹر ثمر مبارک نے عدالت میں بتایا تھا کہ ریکوڈک سے ڈھائی ارب سالانہ جبکہ مجموعی طور پر31 ارب ڈالرز حاصل ہونے تھے۔ یہ ایک انتہائی اہم منصوبہ تھا۔ اس کو روک دینے کا خمیازہ آج پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپوٹرز نے پاکستان پر4 اعشاریہ8 ارب ڈالر کا ہرجانہ جبکہ پاکستان ٹیتھیان کمپنی کوایک اعشاریہ87 ارب ڈالرز سود ادا کئے جانے کا حکم صادر کیا گیا ہے۔ 1993ء میں بلوچستان کے علاقے میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش میں یہ لائسنس جاری ہوا اب کمپنی نے2011ء میں منصوبہ کالعدم قرار دیئے جانے پر عالمی بنک کے ثالثی ٹربیونل میں16ارب ڈالرز کے ہرجانے کا دعویٰ دائر کردیا۔ نتیجہ یا سزا آج سب کے سامنے ہے۔ اس سے بڑا ملک کا نقصان کیا ہوسکتا ہے۔ ایک طرف تو پاکستان بیرون ممالک سے قرض مانگ مانگ کر ہلکان ہواجارہا ہے اور اسے ملنے والے قرض کی رقم سے کہیں زیادہ اْسے ہرجانے کی مصیبت پڑ گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس منصوبہ کو کالعدم قرار دیئے جانے کے پیچھے وجوہات کیا تھیں اور اتنی آسانی سے فیصلہ سنانے والوں کوکیا مستقبل میں اس کے خوفناک نتائج کا علم نہیں تھا؟ اسی غفلت اور لاپرواہی کی سزا آج کسے مل رہی ہے اور اسکے ذمہ داران کون ہیں؟ توجہ طلب امر یہ ہے کہ ان تمام جج صاحبان سے اس بارے میں سختی سے سوال جواب ہونے چاہئے اور بات صرف موجودہ ہرجانے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ جب کمپنی نے پاکستان کیخلاف اس حوالے سے مقدمہ دائر کیا تو پاکستان کی جانب سے بیرون ممالک ہی میں وکلاء کو مقدمہ لڑنے کیلئے بھاری بھر کم فیسیں بھی ادا کی گئیںیہ اور بات کہ فیس وصول کرنے کے باوجود وکلاء اس مقدمہ سے خود کو علیحدہ کرتے گئے اور کوئی مناسب حل نہ نکل سکا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ خزانے ہمارے ملک میں موجود ہیں اور ان کو نکالنے اور ان سے مفادات حاصل کرنیکا کام غیروں کے سپرد کیوں کردیتے ہیں۔ دوسری طرف ریکوڈک کے حوالے سے بلوچستان کے بعض سیاسی حلقوں میں تحفظات پائے جاتے تھے۔ ان حلقوں کی جانب سے اس رائے کا اظہار کیا جاتا رہا کہ ریکوڈک کے معاہدے میں بلوچستان کے لوگوں کے مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ اس معاہدے کو پہلے بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کیا گیا تھا مگر ہائی کورٹ نے اس حوالے سے مقدمے کو مسترد کردیا تھا۔ بعد میں اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ اس وقت بلوچستان حکومت نے لائسنس کی فراہمی کیلئے یہ شرط رکھی تھی کہ کمپنی یہاں سے حاصل ہونے والی معدنیات کو ریفائن کرنے کیلئے بیرون ممالک لے کر نہیں جائیگی بلکہ چاغی میں ریفائنری کی شرط رکھنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے حصے کو بھی بڑھانے کی شرط رکھی گئی تھی۔ ان شرائط کو نہ ماننے اور محکمہ بلوچستان مائننگ رولز2002ء کی شرائط پوری نہ ہونے کے باعث معدنیات کی لائسنس دینے والی اتھارٹی نے نومبر 2011ء میں ٹی سی سی کو مائننگ کا لائسنس دینے سے انکار کردیا تھا۔ کمپنی نے اس فیصلے کے بعد پاکستان میں کسی فورم میں جانے کی بجائے دو بین الاقوامی فورمز سے رجوع کرلیا۔ اگرچہ بلوچستان کی حکومت نے پہلے اس علاقے میں بین الاقوامی مائننگ کمپنی بی ایچ پی بلیٹن کے ساتھ 1993ء میں دستخط کئے تھے جس میں یہ طے پایا تھا کہ ایک مشترکہ پروجیکٹ شروع کیا جائیگا جس میں بلوچستان کا حصہ25فیصد اور بی ایچ پی کا حصہ 75فیصد ہوگا۔ اس سلسلہ میں جون2000ء میں ایک تحریری دستاویز میں حقوق سے دست کشی کا ایک معاہدہ بھی ہوا تھا۔ اپریل 2006 میں ایک تجدیدی معاہدہ کے ذریعے سی ایچ ای جے وی اے کے تحت بی ایچ پی کے تمام حقوق اور ذمہ داریاں حاصل بھی کرلی تھیں۔ لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب بی ایچ پی نے اپنے حصص ٹی سی سی کے ہاتھ فروخت کردیئے اور پھر ٹی سی سی نے انہیں بیرک گولڈ اور رینٹو فگسٹ کو فروخت کردیا۔ سوال یہ ہے کہ ریکوڈک پروجیکٹ بین الاقوامی شہرت یافتہ کمپنی بی اپچ پی بلیٹن نے ٹی سی سی کو منتقل کیا تو اس وقت پاکستانی حکمرانوں نے اسے مسترد کیوں نہ کیا۔ معاملہ آج اس نہج پر پہنچتا ہی نہ اگر اسی وقت مناسب کارروائی اور حکمتِ عملی اختیار کرلی جاتی۔ لیکن ایک بڑا فائدہ جسے اس سارے تناظر میں نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ریکوڈک سے13ملین اونس سونے کے ذخائر ملنے کی اْمید تھی یہ ذخائر کسی ایک جگہ پر نہیں ہوتے کہ معلوم ہوا اور وہاں کھدائی کرکے نکال لئے جائیں بلکہ اس کیلئے کمپنی کو پورے علاقے میں انفراسٹرکچر تعمیر کرنا تھا جو وہاں پر تھا ہی نہیں۔ اسی وسیع وعریض ریگستانی جگہ سے یہ سونا 56 برس کی محنت کے بعد کئی سو ملین کی سرمایہ کاری کے بعد حاصل کیا جانا تھا۔ اس کیلئے کڑی محنت کے ساتھ ساتھ بھاری سرمایہ کاری درکار تھی۔ کمپنی نے جو فزیبلٹی اسٹڈی جمع کروائی اسکے مطابق ہر قسم کا منافع، ٹیکس اور رائلٹی کی مد میں وفاقی اور صوبائی حکومت کو پورے منصوبے کے دوران ڈسٹری بیوٹ ایبل کیش فلو کا50 فیصد ملنا تھا ظاہر ہے کہ یہ آفر اور رقم کوئی معمولی تو نہیں تھی۔ لیکن کیا کیا جائے کہ اس وقت ہمیں یہ بھی کوئی غیر ملکی سازش نظر آئی اور ہم نے معاہدہ کو مسترد کرکے ایک بہت بڑے فائدے سے پاکستان کی محروم بھی کردیا۔