ایک وقت تھا کہ گوجرانوالہ بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجوکیشن کا وجود نہیں تھا۔اساتذہ ،طلباء اور انتظامی امور لاہور بورڈ سے منسلک تھے۔غیر نصابی سرگرمیوں کا مرکز بھی لاہور بورڈ تھا۔یہاں ہونیوالے طلباء کے تقریری مقابلے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ۔طلباء کئی کئی ہفتوں تک تقریریں یاد کرتے ۔کیونکہ بورڈ سے انعام لینا تو دور کی بات ،ان مقابلوں میں شرکت بھی بڑا اعزاز تھا۔1980ء کی دہائی کے اوائل میں یہاں ایک تقریری مقابلہ ہوا۔عنوان اب یاد نہیں آرہا ۔اس میں گوجرانوالہ سے میری ایک شاگرد عظمیٰ بٹ نے شرکت کی جس کا تعلق گورنمنٹ فتح دین سکول چوک نیائیں سے تھا۔ان دنوں ضیاء الحق کے مارشل لاء کیخلاف ایم ۔آر۔ڈی کے پلیٹ فارم سے تقریریں کرتے کرتے میرے اپنے مزاج میں ظلم وجبر اورفرد واحد کی حکومت اور خاص طور پر ضیاء کے لگائے گئے "پودوں" کیخلاف بڑی نفرت تھی۔اپنے اسی سیاسی مزاج کے تحت میں نے عظمیٰ کو تقریر لکھ کر دی اس کا حوصلہ بڑھانے کیلئے میں بھی لاہور بورڈ کے سبزہ زار جاپہنچا۔آپ تقاریر کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ پروفیسر وارث میرصاحب جیسا نابالغہ روزگار چیف جج تھا ،باقی دوجج صاحبان بھی یقینا ان کے معیار کے قریب قریب ہوں گے ۔پچاس سے زائد طلباء شریک مقابلہ تھے میری شاگرد نے توساری تقریر ہی ضیاء الحق کے خلاف کرڈالی۔مقابلہ ختم ہواتو نتائج کیمطابق پورے لاہور بورڈ میں اس نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔پھر مہمانوں اور طلباء کی چائے وغیرہ سے تواضع کی گئی۔کیا دیکھتا ہوں کہ پروفیسر وارث میر صاحب بڑی بے تابی کے ساتھ کسی کو ڈھونڈ رہے ہیں۔معلوم ہوا کہ وہ اس لڑکی کو تلاش کررہے ہیں جس کی ساری تقریر ضیاء الحق کے مارشل لاء اور عوام کے حق حکمرانی کیلئے تھی۔آخر کار انہوں نے میری شاگرد کو تلاش کرکے پوچھا کہ تمہیں یہ تقریر کس نے لکھ کردی تھی۔اس نے میری طرف اشارہ کیا کہ تو دیکھ کرمسکرائے اور کہا کہ تم سے یہی امید تھی ۔ مجھے"جپھی"ڈال کر بتایا کہ میں نے تو اس لڑکی کو پہلی پوزیشن دی تھی کیونکہ گھٹا ٹوپ سیاسی وسماجی اندھیرے میں اس کی تقریرایسی شعلہ نوا تھی جو للکارتی بھی ہے اور اس کا شعلہ روشنی بھی پیدا کرتا ہے۔یہ واقعہ ،یہ حسین یادیں ،پروفیسر صاحب کی شفقت،ان کی حوصلہ افزائی اور ان کی عالمانہ گفتگو آج تک ذہن پرثبت ہے۔ایک اور واقعہ یا دآگیا۔وارث میر صاحب کے ایک بیٹے شائد عامر میر نام تھا ان کا۔ گورنمنٹ سائنس کالج وحدت روڈ کی طلباء یونین کے صدر منتخب ہوگئے۔ ہارنے والا شائد اسلامی جمعیت طلباء کا امیدوار تھا۔یہ شکست جمیعت سے برداشت نہ ہوسکی اور میر صاحب کے بیٹے پر قتل کا ناجائز مقدمہ درج کرادیا۔اور پنجاب یونیورسٹی میںپروفیسر میر صاحب کاناطقہ بند کردیا ۔ وارث میر چومکھی لڑائی لڑنے کے عادی تھے۔اوپر سے ان کا قول تھا کہ"ایک سچالکھنے والا کبھی کسی کا ایجنٹ نہیں ہوتا" ۔اپنے قول کی سچائی کا پہرہ دیتے رہے۔ضیاء الحق کے خلاف ان کی تحریریں عوام میں مقبولیت کی بلندیوں پر تھیں ۔انکی تحریروں کا لوگوں کو انتظار رہتا ۔ بڑے بڑے علماء ،صحافی،سیاستدان اور فلسفہ دان انکی تحریروںکو سندمان کر اپنے خطبات اور تحریروں میں اسے بیان کرتے "فرد واحد کی حکمرانی"کی مخالفت میںوہ اپنے دور کے ان لوگوں میں سے تھے جن کا علمی خزانہ ختم ہی نہیں ہوتا تھا۔فکری طور پروہ ڈاکٹر آغا افتخار حسین اور ان کی کتابوں باالخصوص"قوموں کے عروج وزوال کے اسباب کا ایک مطالعہ" اور انقلاب" سے پہلے علم وخرد کی اسیری"سے بڑے متاثر تھے اور انکی تحریروں میں جابجا ان کے حوالہ جات بھی ہیں ۔ فرد واحد کی حکمرانی سے لیکر عوام کے حق حکمرانی تک وارث میر نے ایک تسلسل کے ساتھ ضیاء الحق کے خلاف لکھنا اور بولنا شروع کردیا۔یونیورسٹی میں اسلامی جمعیتہ طلباء نے انکی زندگی ضیاء کی خاطر اجیرن کردی۔گھر کے باہر ہوائی فائرنگ تک کی جاتی ۔اوپر سے ان کے بیٹے پر قتل کے ناجائز مقدمے نے وارث میر صاحب کو توڑ کررکھ دیا۔دل کے مریض تو وہ پہلے سے ہی تھے اب چار پائی سے لگنے والی بات ہوگئی۔۔"اپنے مرنے سے پہلے میں اس مضمون کو بہر صورت مکمل کرنا چاہتا ہوں۔"یہ وہ الفاظ ہیں جو بیماری کے ہاتھوں تھکے ماندے وارث میر نے اپنے ایک بیٹے کو آخری مضمون کی املالینے کی درخواست کرتے ہوئے کہے۔ ہمارے محترم محمود مرزا ایڈووکیٹ مرحوم نے یہ واقعہ بیان تو کیا، مگر اس بیٹے کا نام نہیں لکھا۔اس مضمون میں وارث میر نے جنرل ضیاء الحق کی اس تقریر کا جواب دیا جس میںاس نے ترقی پسندانہ فکر کو" سیم وتھور" قراردیا تھا۔یہ مضمون مکمل کرلینے کے بعد اگلے روز علی الصبح وارث میر اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔فیض احمد فیض کے بعد وارث میرتھے جن کے انتقال پر اہل لاہور نے زبردست عقیدت کا اظہار کیا۔وارث میر صاحب فوجی آمروں کے علاوہ حسنی مبارک جیسے جمہوری آمروں کو زیادہ ناپسند کرتے تھے کہ ان سے چھٹکارا حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔وارث میرنے ثابت کردیا کہ آخری وقت تک انہیں اپنی زندگی سے زیادہ اس پیغام سے دلچسپی تھی جو وہ اپنے قارئین تک پہنچانا چاہتے تھے۔ایک فوجی آمر کے دور اقتدار میں قلمی جہاد جاری رکھنے والے وارث میر کو بارہاان کے دوست احباب نے سمجھایا کہ وہ نہ تو حکمرانوں کی کھلم کھلا مخالفت کریں اور نہ ہی رجعت پسندمذہبی قوتوں کو للکاریں ۔لیکن وارث میر اپنی روش سے باز نہ آئے اور پھر اس کا خمیازہ انہوں نے بہت سی صورتوں میں بھگتا۔
پروفیسر وارث میر
Jul 20, 2019