تجارت کی غرض سے ورودِ ہند ہونے والی ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب بنگال میں اپنے پائوں جما لیے اور برصغیر کو برٹش رول کے تحت لانے کی منصوبہ بندی شروع ہو چکی، تو ایک نقطے پر سبھی متفق تھے کہ اس حوالے سے شدید ترین ردعمل مسلمانوں کی طرف سے آئیگا۔ کیونکہ ایک تو اس خطہ پر انہوں نے صدیوں حکومت کی ہے، دوسرے ان کا نقطۂِ ارتکاز (قرآنِ حکیم) اس قدر مضبوط ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے خطہ میں برٹش رول کی خواہش سینوں میں ہی دفن رہیگی۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ مسلمانوں سے قرآن حکیم کے نسخے لے لیے جائیں۔ کسی بھی بہانے کہ تحقیق کیلئے ضرورت ہے یا تبلیغ کیلئے استعمال کرنا ہے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے مشنریوں نے کلام پاک کے ہزاروں نسخے جمع کر لیے۔ مگر پھر بھی حاصل کچھ نہ ہوا۔
گورنر جنرل نے جب یہ سُنا کہ رمضان میں حفاظ کرام پورا قرآن حکیم شب بھر میں زبانی پڑھ لیتے ہیں تو حیران ہوا اور اپنے کانوں سے تصدیق کے بعد حکم دیا کہ یہ بیکار کا شغل ہے۔ قرآن کو مٹانا ناممکن ، کیونکہ یہ مسلمانوں کے سینوں میں ثبت ہے۔ اور پہلی فرصت میں جمع شدہ نسخے مالکان تک پہنچانے کا اہتمام کیا گیا۔