واشنگٹن(نوائے وقت رپورٹ، این این آئی، بی بی سی) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود وزیراعظم عمران خان کا استقبال کریں گے،انکے اعزاز میں ظہرانہ بھی دیا جائیگا، امریکی صدر اور وزیراعظم کے درمیان دو نشستیں ہونگی۔ امریکہ کے سی پیک میں سرمایہ کاری پر کوئی تحفظات نہیں ،امریکہ بھی پاک چین اقتصادی راہداری میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے ، افغانستان میں امن کا سب سے زیادہ پاکستان کو ہو گا، پلوامہ حملے پر پاکستان کا کردار سب کے سامنے ہیں، امریکی کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،بھارت کیساتھ امن و استحکام چاہتے ہیں، تعلقات کی بحالی کے لیے مودی سرکار کی پہل کے منتظر ہیں۔ جمعہ کو یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کاروباری افراد، ورلڈ بینک حکام، امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی جبکہ وزیراعظم پاکستانی کمیونٹی سے بھی ملیں گے، پاکستانی وزیراعظم پہلی بار کمرشل فلائٹ پر امریکا آئیں گے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کے امریکا کیساتھ تعلقات کچھ عرصے سے اچھے نہیں، دو طرفہ تعلقات کو پس پشت پر ڈال دیا گیا جبکہ افغانستان کے تنازعہ کو اہمیت دی گئی۔ہمارے جن علاقوں کو علاقہ غیر سمجھا جاتا تھا ہماری پاک فوج نے وہاں آپریشن کر کے دہشتگردوں کا خاتمہ کیا، اب ملک میں کوئی نوگو ایریا نہیں ہے، دہشتگردی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ماضی میں امریکہ کیساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ اس دورے کے دوران کچھ تحفظات دونوں اطراف سے ہیں جو ختم ہوں گے۔ افغانستان میں امن کا سب سے زیادہ پاکستان کو ہو گا ، امریکی کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوںنے کہاکہ بھارت کیساتھ امن و استحکام چاہتے ہیں، تعلقات کی بحالی کے لیے مودی سرکار کی پہل کے منتظر ہیں۔انہوںنے کہاکہ ملک میں معاشی مشکلات ہیں، شرح نمو 2.5 سے 3 فیصد ہے اس سے ہم اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتے، ہمیں ملک میں سرمایہ کاری چاہیے، وزیراعظم عمران خان کوشش کر رہے ہیں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان لائیں جس کے لیے ویزے کے حصول میں آسانیاں پیدا کی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کل 21 سے 23 جولائی تک امریکہ کا تین روزہ دورہ کریں گے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واشنگٹن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاروں کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سرکاری مصروفیات کے بعد وزیراعظم کیپٹل ون ارینا میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کریں گے۔ دورہ امریکہ کے دوران آرمی چیف بھی وزیراعظم کے ہمراہ ہوں گے۔ وزیاعظم کی آئی ایم ایف نمائندگان سے بھی ملاقات ہوگی۔ افغان حالات کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات کشیدہ تھے۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں نشیب و فراز رہے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہورہے ہیں۔ افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کا اعتراف دنیا بھر میں کیا گیا۔ جنوبی ایشیاء ترقی کے دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔ جنوبی ایشیاء کی ترقی کیلئے استحکام درکار ہے۔ ہم خطے میں امن و استحکام چاہتے ہیں۔ پاکستان معاشی چیلنجز کا سامنا کررہا ہے۔ اقتصادی راہداری کا منصوبہ صرف چین تک محدود نہیں ہے۔ سی پیک کے ساتھ اکنامک زونز بھی بنا رہے ہیں جس میں دیگر ممالک بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں پیشرفت ہوئی ہے۔ بھارت کے رویئے کے باوجود ہم نے کرتارپور راہداری کی طرف پیشرفت کی۔ ہمارے ٹھوس اقدامات سے تعلقات میں پیشرفت ہوئی ہے۔ ایران امریکہ کشیدگی کے حل کیلئے سفارتی کوششیں جاری رکھیں گے۔ ایران کے ساتھ بارڈر کو پرامن رکھنا چاہتے ہیں یہ ہماری ضرورت ہے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کیخلاف کیسز ہم نے نہیں بنائے۔ کل کے حریف آج کے حلیف بنے بیٹھے ہیں۔ پاکستان کے مفادات کو اولیت دی جائے گی۔ ہم یہاں دولہا بن کر آئے ہیں اور نہ دلہن لے جانے کا ارادہ ہے۔ میں واضح کہنا چاہتا ہوں ہم یہاں مانگنے نہیں آئے ملک چھوٹے بڑے ہوتے ہیں خودداری سے بات کریں گے، مفادات کا سودا نہیں کریں گے۔ دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا گیا واشنگٹن کی پچ تیز ہے خان تو تیز پچ پر کھیلنے کے عادی ہیں۔ کلبھوشن کیس میں بھارت کی تمام درخواستیں مسترد ہوئیں۔ کسی حکومت نے کشمیر کے مسئلے کو اس طرح نہیں اٹھایا ہے جیسے ہم نے اٹھایا۔ وائٹ ہاؤس سے جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اس ملاقات کے دوران امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعاون کو مزید مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی تاکہ خطے میں امن، استحکام اور معاشی آسودگی کی راہ ہموار ہو سکے۔بی بی سی اردو کے پروگرام سیربین میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں کی یہ رائے تھی کہ اگرچہ یہ دورہ پاکستان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہو گا تاہم اس سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے حوالے سے کسی بھی بڑی پیشرفت کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔