اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+نوائے وقت رپورٹ) اپوزیشن نے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے اجلاس بلا کر ووٹنگ کرانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا اپوزیشن نے خط سیکرٹری ایوان بالا کو بھیج دیا۔ میر حاصل بزنجو نے سینٹ میں اپوزیشن کے ارکان کے ساتھ میڈیا سے گفتگو میں کہا ہمیں قرارداد کے بارے میں ابھی تک نہیں بتایا گیا، جب ہم نے تحریک پیش کی تو 4 دن تک جواب نہیں دیا گیا، 60 سے زائد ارکان کی حمایت کا یقین ہے، فوری طور پر سینٹ کا اجلاس بلایا جائے، شاہد خاقان کی گرفتاری سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے، دباؤ ڈالنے کیلئے مزید گرفتاریاں ہوں گی، گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہیں۔ اپوزیشن کسی بھی دبائو کے آگے جھکے گی نہ پیچھے ہٹے گی۔ چیئرمین سینٹ کے خط کا جواب جمع کرا دیا، دباؤ کے باوجود اپوزیشن پیچھے نہیں ہٹے گی، پیر کو اپوزیشن رہنماؤں کا ایک اور اجلاس ہوگا۔ تحریک عدم اعتماد کے 3 دن تک اس کے بارے میں نہیں بتایا گیا کہ یہ منظور ہوا ہے یا نہیں، جب پارلیمانی لیڈرز نے اس بارے میں پوچھا تو 4 دن بعد غلطیوں کا بتایا گیا۔ 60 ارکان کی حمایت مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن اپنی تحریک عدم اعتماد میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اگر چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ملتوی کیا جاتا یا اس کے لیے کوئی حربہ استعمال کیا جاتا تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ سینٹ کا اجلاس بلایا جائے اور اس میں ووٹنگ کروائی جائے جس سے ثابت ہوسکے کہ اکثریت کس کی ہے۔علاوہ ازیں اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین سینٹ کے خط کے جواب میں لکھا گیا کہ آئین چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی اجازت دیتا ہے، اگر یہ قرارداد منظور ہو جائے تو چیئرمین سینٹ کو آفس خالی کرنا ہوگا۔ آئین میں کوئی شق نہیں کہ قرارداد عدم اعتماد صدر کے بلائے گئے اجلاس میں منظور کی جائے، چیئرمین سینٹ کی جانب سے طلب کیا گیا اجلاس بھی معمول کی مطابق ہو گا۔ ریکوزیشن کا ایجنڈا ترجیح ہوگا، آئین ریکوزیشن کیے گئے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے پر کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ سابق چیئرمین کی رولنگ پر اعتراض بے بنیاد ہے، یہ رولنگ ایجنڈا اور آرڈر آف دی ڈے سے متعلق ہے، لہٰذا آئین کے مطابق تحریک نمٹانے تک اجلاس ملتوی نہیں کیا جاسکتا۔ تحریک عدم اعتماد دیگر قرارداد اور تحاریک پر فوقیت رکھتی ہے اور نوٹس جاری ہونے کے بعد سینٹ کا اجلاس 7 روز سے زیادہ ملتوی نہیں کیا جاسکتا۔ سینٹ میں اپوزیشن جماعتوں کا مشاورتی اجلاس پیر کو طلب کیا گیا ہے جس میں شہبازشریف خصوصی طور پر شرکت کریں گے۔ ادھر قائد ایوان سینٹ شبلی فراز نے سینٹ کا اجلاس 23جولائی تک بلائے جانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ چند لوگوں کے لکھے خط کی کوئی حیثیت نہیں۔ اپوزیشن قانون اور ضابطے کے اندرکام کرے۔ ہم نے کسی کی خواہشات کو فالو نہیں کرنا۔ قانون، رولنگ اور قواعد اہمیت رکھتے ہیں۔ صدر اور ویر اعظم کو بتا دیا کہ معاملے کو لٹکانا نہیں چاہتے۔ ہم جلد اجلاس بلائیں گے طول نہیں دینا چاہتے۔ حزب اختلاف کی خواہش پر کچھ نہیں ہو گا۔ رضا ربانی کی رولنگ قانونی حیثیت رکھتی ہے۔اپوزیشن رہنمائوں نے کہا کہ یہ بلوچ یا بلوچستان کا مسئلہ نہیں ،چیئرمین سینٹ سے ذاتی دشمنی نہیں بلکہ اپوزیشن کا سلیکٹڈ حکومت سے جھگڑا ہے ،اگر تحریک عدم اعتماد میں تاخیری حربے استعمال کئے گئے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوںگے متحدا پوزیشن نے حکومت کو خبر دار کیا کہ وہ تاخیری حربوں سے باز آجائے اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے ایک قدن پیچھے نہیں ہٹے گی۔ ہم نے کلیئر ایجنڈا دیا ہے اس پر رائے شماری ہو سکتی ہے جوابی خط میں ہروہ شق شامل کر دی ہے ،سارا عمل قواعد وضوابط کے مطابق آگے چلے گا آئین ریکوزیشن اجلاس میںچیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی اجازت دیتا ہے۔ عوام کو اپنا کیس بتا رہے ہیں ،عدم اعتماد کی تحریک میں تاخیری حربے استعمال کئے گئے تو یہ غیر قانونی ہو گا۔ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ضرورکامیاب ہو گی، اگر قرارداد منظور ہو جائے تو چیئرمین سینٹ کو آفس خالی کرنا ہو گا۔