اسلام آباد (نامہ نگار) احتساب عدالت نے مریم نواز کے خلاف نیب کی طرف سے دائر جعلی ٹرسٹ ڈیڈ کی درخواست خارج کر دی۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے عدالت میں دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں ٹرسٹ ڈیڈ جعلی تھی، نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے فرد جرم سے متعلق احتساب عدالت کا پرانا حکم نامہ پڑھ کر سنایا اور موقف اپنایا کہ عدالت کے اس حکم نامے کو مریم نواز نے کہیں چیلنج نہیں کیا، جعلی ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق حکم نامہ موجود ہو تو 30دن کے اندر کارروائی لاگو نہیں ہوتی، لہذا اس حکم نامے کی روشنی میں جعلی ٹرسٹ ڈیڈ پر کارروائی کی جائے۔ مریم نواز نے کہا تھا کہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں جب کہ عدالت کا خصوصی دائرہ اختیار ہے۔ اس دوران مریم نواز نے نیب پراسیکیوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ایک سال کا عرصہ کیوں لگا عدالت کو یاد دلانے میں؟ نیب پراسیکیواٹر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہی بتا رہا ہوں۔ مریم نواز نے نیب پراسیکیوٹر سے کہا کہ آپ نے تھوڑی سی دیر کردی، بس ایک سال۔ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ دیرآید، درست آید، جس پر مریم نے کہا کہ ہر وقت بندہ درست نہیں ہوتا، دوران سماعت مریم نواز نے بولنے کی اجازت مانگی جس پر جج احتساب عدالت نے کہا کہ آپ اپنے وکیل کو بولنے دیں۔ مریم نواز نے کہا کہ ہر وقت بندہ درست نہیں ہوتا۔ احتساب عدالت میں درخواست دائر کرنا نیب کا اختیار نہیں تھا بلکہ یہ عدالت کے خصوصی دائرہ اختیار میں آتا ہے اور درخواست دائر کرنے کی 30روز کی قانونی مدت بھی ختم ہوچکی لہذا نیب کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیا جائے۔ جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ جعلی دستاویزات کا معاملہ تو فرد جرم عائد کرتے وقت نمٹا دیا گیا تھا تو پھر نیب نے اس حوالے سے درخواست کیوں دائر کی۔ مریم نواز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایون فیلڈ کے بارے میں عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہے اور جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ اس سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کرتی احتساب عدالت کو نیب کی اس درخواست کو سننے کا اختیار نہیں ہے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد 10منٹ بعد فیصلہ سنایا۔ عدالت نے کہا اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ آنے تک کارروائی نہیں کرسکتے، اپیل کا فیصلہ آنے تک ٹرسٹ ڈیڈ کی سماعت نہیں ہوسکتی۔ احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے۔ 2 ہزار سے زائد پولیس، رینجرز، ایف سی اور سپیشل برانچ کے اہلکاروں سمیت خواتین پولیس اہلکاروں کو بھی کو احتساب عدالت کے باہر تعینات کیا گیا۔ پولیس افسروں کو احکامات جاری کیے گئے تھے کہ احتساب عدالت کسی صورت ن لیگی کارکن نہ پہنچنے پائیں۔ احسن اقبال کو عدالت کی جانب جانے والے راستے پر روک دیا گیا جس پر سابق وزیر برہم ہوگئے اور کہاکہ حکومت فسطائی ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ کارکنوں کی بھی بڑی تعداد کشمیر ہائی وے پہنچی۔ پولیس بھی پہلے ہی پوری تیاری کے ساتھ کھڑی تھی، انہوں نے 12سے زائد کارکنوں کو پکڑ لیا جس پر متوالوں نے دھرنا دیا اور کشمیر ہائی وے کو ٹریفک کے لیے بلاک کردیا۔ علاوہ ازیں مریم نوازنے کہا ہے کہ بات چیت کیلئے متعدد بار رابطہ کیا گیا لیکن ہم تیار نہیں ہوئے۔ پوری مسلم لیگ (ن) کو بھی گرفتار کر لو لیکن ملک تم پھر بھی نہیں چلا سکتے۔ حکومت کو اپنی نااہلی اور ناکامی کا جواب عوام کو دینا ہی پڑے گا۔ میں اور میاں صاحب بات چیت کے لوازمات پورے نہیں کر سکتے۔ صحافی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ وہ کون سے لوازمات ہیں جو آپ لوگ پورے نہیں کر سکتے جس پر مریم نواز نے کہا کہ بات چیت کے لیے اصولوں کی قربانی دینی پڑتی ہے جس کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔ ڈیل دینے کی باتیں کرنے والے کو خود ڈیل کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ میں تو موجودہ حکومت کو 5سال دینے کے لیے تیار ہوں لیکن عوام انہیں مدت مکمل نہیں کرنے دیں گے کیونکہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ راولپنڈی سے ہمارے 150کارکنوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ اب کسی کی جرات نہیں کہ آمریت کی طرف دیکھے، آمر ناکام ہو چکا، آج وہ بیمار ہے، اللہ انہیں صحت دے۔ ملک میں آزادی اظہار معطل ہوچکا ہے، حکو مت سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی آوازوں کو سینسر شپ کے ذریعے دبانے کی کوشش کر رہی ہے، وہ آوازیں بہت مضبوط ہیں جنہیں بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، سوشل میڈیا کو سینسر شپ کی آڑ میں نشانہ بنانے والی حکومت کمزور ہے۔ پارٹی کی مشاورت سے سڑکوں پر نکلیں گے، حکومت کے خلاف احتجاج کا فیصلہ آل پارٹیز کانفرنس میں کیا جائے گا۔ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق چلیں گے۔ جب کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے بغیرملک گیر ہڑتال ہوسکتی ہے تو یہ حکومت کی ناکامی ہے۔ عوام سڑکوں پر نکلنے کے لیے پاکستان مسلم لیگ نواز کا انتظار نہیں کر رہے بلکہ وہ خود ہی سڑکوں پر ہیں۔ ایک سوال پر کہ کیا آرمی چیف کو ایکسٹینشن ملنی چاہیے، مریم نواز نے کہا کہ آئین و قانون پر عملدرآمد ہونا چاہیے، نہ اس سے زیادہ نہ کم۔وومن پولیس نے رات گئے شخصی ضمانت پر گرفتار خواتین کارکنوں کو رہا کردیا ہے۔ پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر چھ خواتین کارکنوں سمیت اٹھارہ افراد کو اپنی حراست میں لیا۔