آج کل اجل نے دنیا کے دوسرے حصوں کی طرح ہمارے ملک میں بھی انسانوں کو اپنا خصوصی ہدف بنا رکھا ہے اور آئے دن کوئی نہ کوئی ایسی خبر سننے کو مل جاتی ہے کہ فلاں شخص کی وفات ہوگئی اور نماز جنازہ فلاں وقت ہے۔اجل کے اسی ریلے نے گزشتہ بدھ 8جولائی کو ہمارے بہت پیارے بھائی اور انتہائی قابل احترام دوست بہاولپور آرٹ کونسل کے ریذیڈینٹ ڈائریکٹر اور سابق ڈائریکٹر تعلقات عامہ بہاولپور، ایک عظیم صحافی اور دنیا کے ہر مسئلے پر گہری نظر رکھنے والے دانشور ، اہل قلم اور ایک صاف گو بہادر سرکاری افسر رانا اعجاز محمود کو اپنی لپیٹ میں لے کر ہمیشہ کیلئے اسے جسمانی طور پر ہم سے جدا کر دیا۔ان کی اس جدائی کو جسمانی طور پر جدائی اس لئے کہوں گا کہ روحانی طور پر اس کا دمکتا ہوا چہرہ اور اس کی چمکتی ہوئی آنکھیں اس کی مہکتی ہوئی باتیں کبھی ہم سے جدا نہیں ہوسکیں گی۔ ان کی باتوں کی خوشبو اور مہک اس وقت تک ہماری سانسوں اور دل و دماغ کو معطر کرتی رہیں گی جب تک ہم اس دنیاے فانی میں اپنے سانسوں کی گنتی پوری کرتے رہیں گے۔
مجھے انہیں جاننے کا پہلا موقع اس وقت ملا جب چند سال پہلے مجھے ریڈیو پاکستان ملتان کے ایک بدکردار اعلیٰ افسر نے اپنی بد کرداریوں کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے اپنے ایک اہم خوشامدی افسر (امدادی کردار) کے کہنے پر دیگر تین دوست افسروں سمیت ملتان سے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد تبدیل کروادیا۔ان دنوں میرے اہل خانہ کو ملتان میں میری سخت ضرورت تھی۔ میرا مکان زیر تعمیر تھا اور دو بچوں کی شادیاں قریب تھیں۔ مجھے میرے انتہائی قابل احترام دوست صحافی دانشور، کالم نگار اور محکمہ تعلقات عامہ کے سینئر افسر سجاد جہانیہ اور ہمارے بہت مہربان افسر آصف خان کھیتران نے مشورہ دیا کہ لیہ کے اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر تعلقات عامہ رانا اعجاز محمود ریڈیو پاکستان ملتان واپسی میں آپ کی بھرپور مدد کرسکتے ہیں۔دراصل اس وقت کی ریڈیو پاکستان کی ایک خاتون ڈائریکٹر جنرل سے رانا اعجاز محمود کے فیملی تعلقات تھے اور یہ بات ایک ملاقات میں ان ڈی جی نے مجھے خود بتائی تھی کہ رانا اعجاز محمود میرے شوہر کے منہ بولے بھائی ہیں اور اس ناطے وہ میرے دیور ہیں۔ وہ جب بھی اسلام آباد آئیں تو ان کا قیام میرے گھر پر ہی ہوتا ہے۔قصہ مختصر یہ کہ میں نے رانا صاحب سے اپنے ملتان تبادلے میں مدد کرنے کی درخواست کی جس کا انہوں نے مجھ سے وعدہ کر لیا اور ایک دن وہ میری تبادلے کی درخواست لے کر ریڈیو پاکستان کے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد پہنچ گئے۔ واپسی پر انہوں نے مجھے یقین دہانی کروائی کہ میڈم صاحبہ نے مجھ سے آپ کو واپس ملتان بھجوانے کا وعدہ کر لیا ہے اور انشاء اللہ ایک ہفتے میں آپ ملتان واپس آجائیں گے۔
بد قسمتی سے میرے ہی ایک عزیز اور رشتہ دار اس وقت شعبہ نیوز کے اعلیٰ افسر تھے اور مجھ سے خصوصی عناد رکھتے تھے۔ ان کی مزاحمت پر میرا ملتان تبادلہ نہ ہوسکا اور ان خاتون ڈی جی نے رانا اعجاز محمود کے ایک سے زائد بار کہنے پر بھی میرا ملتان تبادلہ نہ کیا۔ تاہم خاکسار نے میڈم صاحبہ کو کسی اور واسطے سے اپنے تبادلے کی درخواست پر ہمدردانہ غور کی التجا کی تو انہوں نے فوراً میرا تبادلہ ملتان کر دیا۔ اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد رانا اعجاز محمود کی صاف گوئی اور اصول پسندی کی ایک ایسی مثال قارئین کی خدمت میں پیش کرنا تھا کہ جب میں اپنے ملتان واپس تبادلے کی خوشی میں ملتانی سوہن حلوے کا ڈبہ لے کر ان کا منہ میٹھا کروانے بہاول پور ان کے دفتر پہنچا اور اپنے تبادلے کی خوشی میں ان کا منہ میٹھا کروانے کی کوشش کی تو وہ انتہائی طیش میں آگئے اور کہا کہ ''عمر دراز تم میرا دل رکھنے کیلئے آئے ہو اور مجھے یہ باور کرانا چاہتے ہو کہ آپ کا تبادلہ میری کوشش سے ہوا ہے۔ میں اس مٹھائی کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا، اسے فوراً واپس اٹھا لو ورنہ میں اس ڈبے کو ابھی اپنے ہاتھ سے اٹھا کر باہر پھینک دوں گا۔''رانا اعجاز نے ایک موٹی سی گالی نکالتے ہوئے کہا کہ اس خاتون افسر نے میرے کہنے پر آپ کا تبادلہ نہیں کیا، اگر اسے میرا ذرا سا بھی لحاظ ہوتا تو وہ اسی روز آپ کا تبادلہ کر دیتی جس روز میں آپ کی درخواست لے کر اس کے پاس گیا تھا۔ میرے اس خاتون کے شوہر اور اس خاندان کے ساتھ بہت پرانے گھریلو مراسم تھے جس کا اس نے احترام نہیں کیا۔ آپ کسی اور ذریعے سے اپنا تبادلہ خود ملتان کرواکر آئے ہیں اور مجھے میرا دل رکھنے کیلئے خوش فہمی میں مبتلا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ان کی بات تو درست تھی میں شرمندہ بھی تھا اور حیران بھی کہ اتنا صاف گو انسان اور کھرا آدمی میں نے زندگی میں نہیں دیکھا وہ اپنا بھرم رکھنے کیلئے منافقانہ ہنسی ہنس کر مجھے شکریے کے الفاظ بھی کہہ سکتا تھا اور مجھ پر اپنا احسان بھی قائم رکھ سکتا تھا لیکن اس مرد قلندر نے اعلیٰ ظرفی اور راجپوتانہ صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی کوشش کی ناکامی کا اعتراف کیا۔ میں نے بڑی مشکل سے انہیں قائل کیا کہ یہ مٹھائی آپ کے میرا تبادلہ کروانے کی نہیں بلکہ کسی بھی ذریعے سے ہی سہی میرے ملتان واپس تبادلے کی خوشی میں لائی گئی ہے۔ان کی شخصیت کے دانشورانہ پہلو کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب ہمارے محترم دوست سجاد جہانیہ نے انہیں ہماری ایک ادبی ثقافتی اور تحقیقی تنظیم ''بزم احباب'' کے ایک پروگرام "گفتگو" میں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا اور ان سے افغانستان کی جنگ اور اس کے نتیجہ میں ہمارے ملک میں پھیلی دہشت گردی کی خوفناک لہر پر اظہار خیال کی دعوت دی۔ اپنے اظہار خیال میں رانا اعجاز محمود مرحوم نے افغانستان میں جنگ کی صورتحال، وہاں پر سر گرم ملک دشمن خفیہ ایجنسیوں ، دہشت گرد تنظیموں اور افغانستان کے قبائل کی تہذیب و ثقافت اور وہاں کے جغرافیائی اور پیچیدہ سیاسی حالات واقعات پر اتنی خوبصورتی گہرائی اور گیرائی سے روشنی ڈالی اور مستقبل میں خطے پر پڑنے والے اس خوفناک لڑائی کے اثرات پر اپنا ایسا نقطہ نظر پیش کیا کہ وہاں پر بیٹھی ہوئی محکمہ اطلاعات اور میدان صحافت کی بڑی بڑی شخصیات انگشت برنداں رہ گئیں یہ کوئی 2008یا2009کا زمانہ تھا۔ انہوں نے اردو اور انگریزی میں اپنے لفظوں کے ایسے موتی بکھیرے کہ ہم دنگ رہ گئے میں اسی روز سے ان کی علمیت اور فہم و فراست کا قائل ہوگیا تھا اور ان کا احترام اپنے اساتذہ کی طرح کرنے لگا تھا۔رانا اعجاز کی محبت اور اپنائیت کی ایک اور مثال اس وقت میرے سامنے آئی جب میرے بیٹے جاذب سعید نے مجھے ان سے اپنی پہلی ملاقات کا قصہ سنایا۔ میرے سب سے چھوٹے بیٹے راؤ جاذب سعید جو اس وقت پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی بہاولپور میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ ان کے بارے میں رانا اعجاز محمود کو پتہ چلا کہ وہ راؤ عمر دراز کے بیٹے ہیں تو فون کرکے انہیں فوراً چائے پر اپنے دفتر میں بلا لیا، میرے بیٹے جاذب سعید نے جاتے ہی انہیں سر کہہ کر مخاطب کیا تو وہ غصے میں آگئے بیٹے کو پنجابی میں مخاطب ہو کر کہا
''اوئے نکمے جے توں ہن مینوں فیر سر کیہا تے میں چپیڑ مار کے تیرا منہ بھن دیواں گا، توں میرے بھرا عمر دراز دا پتر ایں تے میرا وی پتر ایں آئندہ مینوں انکل کہہ کے مخاطب کریا کر".
رانا اعجاز محمود مرحوم نے پھر شام کو مجھے فون کرکے یہ واقعہ سنایا محبت اور اپنائیت کے اظہار کا یہ انداز اب اور کس شخصیت کے چہرے کے آئینے میں دیکھنے کو ملے گا۔ چوک اعظم کی عید گاہ میں ان کا جنازہ رکھا تھا جب میں آخری دیدار کیلئے چارپائی کے قریب گیا تو ان کے بھرے ہوے شگفتہ اور بارعب چہرے کو طویل بیماری نے ایک کمزور سوکھے ہوئے اور نحیف و نزار چہرے میں بدل دیا تھا۔ مجھ سے زیادہ دیر وہاں کھڑا نہ ہوا گیا گویا وہ مجھ سے کہہ رہے ہوں۔
کرو کج جبیں پہ سر کفن میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو۔
کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ میں نے بھلا دیا۔