اپنے اندر بے شمار صفات کو سمائے راجہ بشارت خود تو دنیا چھوڑ گے لیکن جانے کے بعد ایک ایسا خلاء پیدا کر گے جو کبھی پر نہ ہو سکے گا آپ کی شخصیت منفرد تھی ڈی پی او ہونے کے باوجود کوئی تکبر نہ تھا انسانیت سے پیار اور انسانیت کی خدمت ہی ان کا مقصد حیات تھا اپنی قابلیت ہنر مندی کا لوہا منوایا علم و حکمت دانش بصیرت دین شنائی رہبری و رہنمائی جیسی خداد صلاحیتوں کے ساتھ ملک و قوم کی ایسی خدمت کی کہ کوئی بھلا نہ سکے گا ایسے انمٹ نقوش چھوڑے جو کبھی مٹ نہ سکیں گے راجہ بشارت کی زندگی جہاں ہم سب کے لیے ایک مشعل راہ ہے وہاں پولیس فورس کے لیے ایک مثال ہے جنھوں نے اپنی ساری زندگی انصاف انسانیت کے لیے وقف کر رکھی تھی سرکاری گاڑیاں استعمال کرنے سے گریز کرتے سارا کام اپنے ہاتھوں سے کرتے ظلم اور ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے اور آخری دم تک بے بسوں اور کمزوروں کا ساتھ نبھاتے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی حلال روزی کمانے کے لیے کوشاں رہے جبکہ برطانیہ میں ان کے بھائی راجہ ناصر شہباز اور مون سلمان رضا بھی حلال کاروبار ہی کے لیے جدوجہد کرتے رہے اور اپنے کردار اور عمل سے اپنا مقام بنایا۔ راج بشارت ایک آئیڈیل شخصیت تھے۔ پرائیویٹ سفر کے دوران پروٹوکول نہیں لیتے تھے۔ اپنا بیگ خود اٹھاتے حتیٰ کہ گھر کی شاپنگ روزمرہ کی اشیاء اپنے محلے سے خود خریدنے جاتے اگر کوئی سائل گھر آ جاتا کھانا کھلائے بغیر واپس نہ جانے دیتے۔ سیکورٹی پر مامور سپاہی کو کہتے کہ کوئی بھی ملنے آئے اسے انکار نہ کرنا ہمہ تن اس کوشش میں رہتے کہ کسی طرح انسانیت کی خدمت کرتے رہتے کسی کی سفارش نہ سنتے اور نہ عمل کرتے اسی بنیاد پر سزا کے طور پر متعددمرتبہ ٹرانسفرز ہوتیں رہیں لیکن اپنے مقاصدسے پیچھے نہ ہٹے۔ ( ناصر تارڑ، راولپنڈی)