مکرمی!پچھلے تین چار عشروں میں عوام و خواص کی سوچ نے تیزی سے ’’رجائیت‘‘ سے ’’قنوطیت‘‘ کا سفر طے کیا ہے یا دوسرے الفاظ میں ’’آس‘‘ سے ’’نراس‘‘ کا۔ کسی بھی قوم کیلئے یہ اچھا شگون نہیں۔ ہمارا دین تو ہے ہی امید، حوصلے اور اعتماد کا منبع۔ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لے آئے تو پھر ہمیں کس بات کا خوف اور کس شے سے ناامیدی۔ جب ہم قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو جابجا حوصلہ افزا احکامات ہماری رہنمائی کرتے ہیں اور ہمیں خردمندی، فہم و ادراک اور حسن شعور سے رائے قائم کرنے کا درس دیتے ہیں۔ سورۃ زمر آیت 53میں تو اللہ تعالیٰ نے یہاں تک فرمایدیا کہ ’’اے نبیؐ! کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ وہ تو غفور اور رحیم ہے۔‘‘ سورۃ یوسف کی آیت 87میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی زبانی اپنے بیٹوں سے خطاب میں یہاں تک فرما دیا کہ ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔‘‘ مزید سورۃ ہود کی آیت 9میں فرمایا کہ’’ اگر ہم کبھی انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد اس سے محروم کر دیتے ہیںتو وہ مایوس ہو جاتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے، یعنی مایوسی اور ناشکری ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور اللہ کو ہرگز پسند نہیں۔‘‘ قرآن کی تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اللہ پر مکمل توکل اوربھروسہ کرتے ہوئے کبھی نہیںبھولنا چاہئے کہ اس کے مومن بندے ہر قسم کے نامساعد حالات کا امید و رجا اور مثبت سوچ سے مقابلہ کرتے ہیں اور اللہ سے کسی حالت میںبھی مایوس نہیں ہوتے۔(محمد اسلم چودھری، ابدالین سوسائٹی، جوہر ٹائون، لاہور)
ناامیدی سے امید کا سفیر
Jul 20, 2020